میں بھی حوا کی بیٹی ہوں

منگل 29 جون 2021

Zeeshan Yousafzai

ذیشان یوسفزئی

سارے انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں لیکن زیادہ تر آپ نے سنا ہوگا کہ مرد کو آدم کا بیٹا اور عورت کو حوا کی بیٹی کے لیے حوا کی بیٹی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور خصوصاً جب کسی کے عورت کے ساتھ ظلم زیادتی ہوجاتی ہیں ہم اس کے لیے پھر دکھ بھرے فقرے اور حوا کی بیٹی جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ الگ بات ہیں کہ ہم عملی طورککھ بھی نہیں کرتے ۔

آج کل میڈیا میں زیادہ تر ایک قسم کے خبریں آپ کو ملیں گے کہی پر کسی پھول جیسے بچے کے ساتھ کیسی نے زیادتی کی ہوگئی تو کہی پر ننھی بچی کیسی درندے کا شکار بنے ہوگی تو کھبی ٹوئٹر اور باقی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دیکھنے کو میلے گا کہ کیسی لڑکی کو ماں کا ایک لاڈلہ بلیک میل کررہا ہوگا اور کھبی ویڈیو دیکھنے کوملیے گئی جس میں راہ چلتی شریف زادی کو کوئی چیڑرہا ہوگا اب پتہ نہیں یہ کیسیز اب زیادہ ہوگئے یا میڈیا پر رپورٹ زیادہ ہوتے ہیں یہ وہ کش مکش ہے جس میں مبتلا ہوں، لیکن ان سب میں آپ نے ایک چیز جو نوٹ کی ہوگی اور وہ ہم سب کرتے ہیں کہ کسی کہ ساتھ کوئی برا ہوجائے تو اس کی مزمت کرتے ہیں جو کہ کرنا بھی چاہئے اور عملی طور پر کوئی اقدامات کرنے چاہئے لیکن کیا ہم نے کھبی غور کیا ہے کہ ہم اپنے گھر کے عورتوں کے لیے فرعون بنے ہوئے ہیں جو لوگ کسی کو حراساں کرتے ہیں وہ تو انسان ہیں ہی نہیں لیکن جن درندو کی ہم مزمت کرتے ہیں وہ تو ٹھیک لیکن اپنے گھر کا کیا وہ بھی تو زیادتی کے زمرے میں آتا ہے اکثر لوگ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں کرتے کیونکہ وہ لڑکیاں ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

یا بیٹوں کو کسی اچھی تعلیمی ادارے میں پڑھاتے ہیں اور بیٹی کو ویسے ہی وقت گزاری کے لیے کیسی سرکاری ادارے میں بھیجتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہیں کہ ویسی بھی کسی دوسرے کے گھر میں جائے گئی اور پشتو میں کہی یہ سنے کو بھی ملے گا ( دہ پردی ڈیران خزلہ دہ) مطلب کسی ڈھیر کا کچرہ ہے مطلب بیٹی کو کچرے سے تشبیہی دی جاتی ہیں اندازہ لگا لیں لیکن جب بات بہو کی آجاتی ہیں تو پھر ہم اس کی آنکھ، ناک، کان، ہاتھ، پاؤں، بال،آبرو، قدوقامت، رنگ، نسل، تعلیم اور اس کا حال ماضی دیکھتے ہیں اور بیشک وہ حال اور ماضی میں کسی کی شہزادی ہوں لیکن مستقبل میں ہم اس کو غلام بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں اور یہ ہمارے اندر کی سب سے بڑی منافقت ہیں، آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ اکثر لوگ اپنی بہن کی شادی اسلیئے نہیں کرتے کہ پھر اس کو جائیداد میں حصہ دینا پڑھے گا حالانکہ وہ اس کے والد کا مال و دولت ہوتا ہے اور اس کو اپنا حصہ ملنا ہوتا ہے اور پھر اگر بات آجائے اسلام کی تو ہم سب سے بڑے پارسا ہوتے ہیں اور دوسرے کو انگلی پکڑنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں جبکہ اسلام کہتا ہیں کہ بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں اور رحمت کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے ہم واقف ہیں۔

اکثر گھروں میں آپ نے نے دیکھا ہوگا جب کوئی لڑکی مہکے آجاتی ہیں ماں اس کو بہت پیار کرتی ہے اور یہ بھی کہتی ہیں پتہ نہیں کیا کیا ظلم کررہے ہونگے اس پر بھلے سے وہ اپنے گھر میں خوش ہی کیوں نہ ہوں اور اس بات کا بنیادی وجہ یہ ہوتا ہے کہ اس گھر میں بہو کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر لڑکوں کی بات کی جائے تو خود جو مرضی کپڑے پہنے، جو مرضی سٹائل بنائے لیکن پھر بہن کے لیے قاعدے ہوتے ہیں اب کس کس بات کو یہاں دھراؤں بس خلاصہ یہ ہے کہ دوسرے پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکے اور دوسرے پر نہ صرف تنقید کریں بلکہ عملی اقدامات بھی کرے لیکن پہلے خود کو ٹھیک کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی بہن ہو، بیٹی ہو ، بیوی ہو یا دوست ہو وہ آپ سے بلا ججک اپنے حقوق مانگ سکے اور آپ کے سامنے یہ بات بلا خوف کہہ سکے میں بھی بنت حوا ہوں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :