ہم منافق ہیں

جمعرات 1 اپریل 2021

Zeeshan Yousafzai

ذیشان یوسفزئی

دنیا میں کوئی بھی مزہب، کوئی بھی تہزیب یا کوئی بھی ملک میرے خیال میں ایسا نہیں ہوگا جو اپنے پیروکاروں کو یہ درس دیتا ہوگا کہ وہ بے ایمان، امانت میں خیانت کرنے والے اور جھوٹے بنے، بلکہ ہر مزہب اور تہزیب یہی درس دیتا ہے کہ جو بھی کام کرو تو ایمانداری اور سچائی کا اصول اپناؤ اور خاص کر ہی انسانی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ جو بندہ سچا ہوتا ہے وہ اگلوں کا دل جیت لیتا ہے، ہم اگر بات کرے زامانہ جاہلیت کی جب دنیا میں تاریکی تھی جب لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے تو اس وقت بھی لوگ سردار دوجھاں کی سچائی سی متاثر تھے اور میلوں دور بھی اس کی صداقت اور امین ہونے کے چرچے تھے اور لوگ اس کی ہر بات کا اندھا اعتبار کرتے تھے وجہ صرف اور صرف سچائی تھی۔

بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم سچائی کے اصول کو اپنائے تو ہر بندہ چاہے جس بھی مزہب سے ہوں اپ کا اعتبار کرے گا اس کے بر عکس وہ لوگ آتے ہیں جن کہ قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے اور کوئی بھی ان کا بھروسہ  نہیں کرتا ان لوگوں کو جھوٹے کہلاتے ہیں اور ہمیشہ ان کا سامنا رسوائی سے ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اب ان کے بعد ایسے لوگ آتے ہیں جو جھوٹے تو ہوتے ہی ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو سچا ثابت کرتے ہیں جن کے ظاہر اور باطن میں فرق ہوتا ہے ایسے لوگوں کو منافق کہا جاتا ہے ان کو قرہ ارض میں ہر کوئی برا بھلا کہتا ہے اوران کو سخت سزاؤں کا مرتقب ٹھرایا جاتا ہے۔

دین اسلام میں ان لوگوں کے سخت سزائے ہیں۔ جہنم جہاں پر بڑے بڑے مشرکین، اسلام کے دشمن اور وہ لوگ جنہوں نے خود خدائی کا دعوہ کیا تھا وہ ہونگے۔ لیکن پھر بھی قرآن میں صاف الفاظ میں ان کے لکھا گیا ہے کہ یہ جہنم کے سب سے آخر میں ہونگے۔ یہ لوگ تو آپ کے سامنے آپ کے رفیق ہونگے لیکن دل میں ان کا کچھ اور ہی ہوگا جو کہ زیادہ نقصان دہ ہے۔ اب اتنی سخت سزاؤں کے باوجود اسلام کے پیروکار جن کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور وہ اس زمرے میں داخل ہوچکے ہوتے ہیں، اگر ہم اپنے  معاشرے پر نظر ڈالے تو ہماری سب سے بڑی منافقت یہ ہے کہ ہم سب مرتے بے حیائی پر ہیں لیکن اپنے لیے پھر حیا پسند کرتے ہیں، رات کو ہم فلم انڈین دیکھ کر اس سے متاثر ہوتے ہیں اور صبح آنکھ کھلتے ہی اپنی بہن یا بیٹی کو سکول، کالج جاتے ہوئے نقاب پر بیس باتے سنا دیتے ہیں رات کو ہم ہالی ووڈ کے اداکاروں سے متاثر ہوکر پھر صبح پارسا بن جاتےہیں، اس بات کو رہنے دے ہم نوکری اپنے لیے سرکاری پسند کرتے ہیں جب کوئی استاد جیسا عظیم پیشہ اپناتا ہے تو سرکاری ادارے میں جانے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں لیکن جب بات اپنے اولاد کی تعلیم کی آتی ہیں تو ہم پھر اچھا سا پرائیوٹ سکول ریفر کرتے ہیں، اگر کوئی ڈاکٹر ہوں تو بھی گورنمٹ ہسپتال میں او پی ڈی پسند کرتا ہے لیکن اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لیے ملک کا سب سے مہنگا ہسپتال پسند کرتا ہے، بات کرے اگر انجیئنر کی، جرنلسٹ کی یا کوئی بھی بندہ کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو تو یہی حال ہے۔

اب اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان سب کو پتہ ہوتا ہے کہ ہم ملک و وقوم کا جو ادارہ ہے ان میں کیسے خدمات انجام دیتے ہیں وہاں پر صرف تنخواہ اور مراعات لینے جاتے ہیں باقی کرتے کچھ بھی نہیں اور اب یہ سراسر منافقت ہیں لیکن پھر دین کی بات آجائے تو ہم سے بڑا کوئی برزگ، نیک اور دوسروں پر تنقید کرنے والا نہیں ہوتا۔ یہاں پر ہمیں یا تو ہمیں بہت بڑی اصلاح کی ضرورت ہے اور یا پھر ہم سرعام اقرار ہی کرے کہ ہم منافق ہیں اور پھر اس کی رسوائی اور زلت کو لینے کے لیے تیار ہوجائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :