رمضان اور کورونا کے دوران گھروں میں رہ کر کیا کیا جائے

جمعہ 30 اپریل 2021

Zeeshan Yousafzai

ذیشان یوسفزئی

کرونا سے پہلے کی دنیا کا معاملہ کچھ اور تھا۔ سب لوگ اپنے اپنے کام، دھندوں میں مصروف تھے کوئی اپنے کاروبار کو ترقی دینے کا سوچ رہا تھا، کوئی اپنی تعلیمی سلسلہ مکمل ہونے کے بعد نوکری یا کسی غیر ملکی ویزے کے بارے میں سوچ رہا تھا  کہ اچانک سے انسانوں کی خوبصورت دنیا کو ایک مہلک وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وائرس کا خوف اور دہشت اتنا تھا کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں بند ہوئے، کاروبار بند ہوئے، سکولز کالجز اور یونیورسٹی بند ہوگئی، لیکن اس دوران چند قومیں تھی جو اس وقت مرض کا مزاق اڑہا رہی تھی، پھر اللہ اللہ کرکے بزور ڈنڈا سب کچھ بند کردیا خیر وہ وقت گزر گیا اور دنیا ایک مرتبہ پھر کھلنے کی جانب چل پڑھی  اسی دوران جب اس کی ویکسین پر کام ہورہا تھا کہی کہی اس کی ویکسین تیار ہوگئی تھی، پھر وباء کا دوسرا لہر آیا  اور آج کل کے دنوں میں اس کا تیسرا لہر آیا ہے اور یہ لہر سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے پڑوسی ملک کے جو ویڈیوز  گردش کررہی ہے وہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور خدانخوستہ اگر ہم نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو چند ہی دنوں میں ہمارا بھی یہی حال ہوگا کیونکہ ہسپتالوں میں جگہ کم پڑرہی ہے، آکیسجن بنانے والے کمپنیوں نے بھی خبردار کیا ہے اور سننے میں آیا ہے کہ بعض قبرستانوں میں پہلے سے کورونا کے مریضوں کے لیے قبرے کھودیں گئے ہیں۔

اب ہمارا کام کیا بن تھا ہے کہ ہم کیا کرے سب سے پہلے احتیاطی تدابیر اپنائے۔ مال و زر، تعلیم و تربیت، عزت و شہرت، عہدہ پرٹوکول ان سب چیزوں کو حاصل کرنے کے لیے  آپ کو زندہ رہنا اور پھر صحت مند رہنا ضروری ہے۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گھر میں بھی لوگ تنگ ہوجاتے ہیں باہر تو نکلنا پڑھے گا لیکن اگر کوئی معنی خیز کام ہوں تو پھر گھر میں لوگ رہ سکتے ہیں اور احتیاط کرسکتے ہیں۔

عام طور پر انسانوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب اس کو پتہ لگتا ہے کہ میں ویلا ہونے لگا ہوں تو وہ کوئی نہ کوئی مصروفیت دیکھ تھا ہے اور اس بارے میں کوئی ترکیب سوچتا ہے۔ طلبا کو اگر ہم دیکھ لے جب وہ میٹرک کرتے ہیں تو چھٹیوں میں کوئی نہ کوئی ڈپلومہ کوئی لینگویج کورس یا زیادہ تر لوگ کوچنگ کلاسز لیتے ہیں لیکن وقت کو ضائع نہیں کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بیرون ملک سے چھٹیوں پر آتا ہے تو کوئی ٹارگٹ رکھا ہوتا ہے کہ گھر میں مختلف کام کاج کرتے ہیں، یا اگر نوکر پیشہ لوگوں کو دیکھ لے تو دو دن کے چھٹی میں بھی وہ کچھ نہ کچھ کرتے ہیں جیسے کتاب پڑھنا وغیرہ وغیرہ، اکثر لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنے لیے کوئی نہ کوئی الجھن دیکھتا ہے اور مقصد یہ ہوتی ہے کہ وقت کو قیمتی بنایا جائے، ٹھیک اسی طرح  گھر میں رہ کر بھی بہت سارے کام ہوسکتے ہیں ویسے بھی رمضان کا مہینہ ہے وقت کی بھی قلت نہیں ہے تو کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور زیادہ سے زیادہ عبادت کی جائے، قرآن ناظرے کے ساتھ پڑھا جائے ہوسکے تو ترجمعہ و تفسیر سے پڑھا جائے، ساتھ میں احادیث کی کتابیں، بنیادی مسائل کی کتابیں وغیرہ پڑھے جائے، تراویح کا اہتمام کیا جائے، کچھ لوگ رات کو جاگتے ہیں وہ ڈرامہ، ڈاکومنٹرزی دیکھ سکتے ہیں، حالات حاضرہ پر نظر رکھ سکتے ہیں، ایک اور بھی کام ہوسکتا ہے کہ کتاب پڑھنے کی عادت اپنے آپ میں ڈالی جائے، زیادہ تر لوگ عام روٹین میں خاندان کو وقت نہیں دیکھ سکتے تو ان کو موقع ہے کہ بچوں اور فیملی کو وقت دے اور فاصلے ختم کرے، سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس پر اپنے خاندان والوں کے تربیت کیا جائے کہ کیسے مثبت استعمال کیا جاتا ہے، ہوم بیس سٹڈی سرکلز اور ڈیسکشن کرنے چاہیے، اگر کوئی کتاب نہیں پڑسکتا ہے تو وہ آیڈیوں بک پڑھے ، کوئی بندہ ہنر مند ہوں تو وہ ہنر اپنے بچوں تک منتقل کیا جائے کیونکہ والدین سے انسان بہت اچھی طرح سیکھ سکتا ہے، اگر کوئی بنجر زمین ہے اس میں کوئی باغیچہ بنائے اور بھی بہت سارے کام اور بھی جس سے انسان اپنا وقت قیمتی بنا سکتا ہے اور پاکستان کی ترقی اپنے خاندان کی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں کرنے کو بہت کچھ ہے بس کرنے والے بنے۔

احتیاط کریں اور گھر میں رہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :