بوسیدہ نظام

بدھ 27 اکتوبر 2021

Zeeshan Yousafzai

ذیشان یوسفزئی

کسی ایک ادارے کو چلانے کے لیے بھی ایک نظام ہوتا ہے، ایک قاعدہ قانون ہوتا ہے ہے جس کو ادارے کے چوکیدارسے لے کرسربراہ  تک کے لوگ اس کے پابند ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

جو لسگ اس قانون کو لاگو کرتے ہیں وہ سب سے زیادہ حسا س ہو تے ہیں اوران کا ہی سب سے زیادہ سخت احتساب ہوتاہے، ادارہ چلے گا ہی تباور اس کا نظم وضبط تب تک قائم رہےگاجب تک یہ نظام اور قانون چاق وچوبند ہے سب کو اس کی پیروی کرنی ہوگئی اور اگر کوئی خلاف ورزی کریں تو اس ہی قانون کے تحت ہی سخت سزا دی جائے جو افراد اس قانون کو بناتے ہیں وہ عام عوام  کے سامنے جواب دہ ہونگے،
ٹھیک یہی صورت حال ممالک کی سطح پر بھی ہوتی ہے ترقی یافتہ ممالک کو اٹھا کر دیکھ لیں وہاں پر سخت نظام قانون ہوتا ہے اور تمام لوگ اس کی پیروی کرتےہیں ، قانون شکنی کی صورت سخت سزا ملتی ہے، اگر کوئی قانون لاگو کرنے والا ہی قانون کو پامال کریں تو اس  کو سب سے سخت سزا ملتی ہے، لیکن ہمارے ملک کاسسٹم تھوڑا سا الگ ہے یہاں پربڑا اچھا موجود ہیں اس کے نافذ کرنے والے بھی موجود ہیںاس قانون کی پاسداری کرنے والے بھی ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو معزز عدالتیں بھی موجود ہیں لیکن پھر بھی ہمار نظام درست سمت نہیں اب کوئی تو ایسی جگہ ہیں جہاں پر خرابی ہیں اور ملک نہیں چلےگا،
اصل میں ہمارا نظام قانون ، نظام انصاف اور اس کے رکوالے بوسیدہ ہوچکے ہیں اور زبوحالی کاشکار ہیں
مثال کے طور پے ایک جگہ پر ایک ہی عمارت کے اندر مختف فلیٹس ہیںاسکا ڈھانچہ رنگ و روغنااچھا ہے اس میں رہنے والے بھی خیال رکھن ے والے لوگ ہیںلیکن جس مٹرئیل سے یہ عمارت بنی ہےوہ ایکسپائر ہوچکے ہیں، جو لکڑی اس میں استعمال ہوئی ہے اس پر بھی گھن لگاہوا ہےدیگر بھی سامان خراب ہوچکا ہے اس عمارت کی انتظامیہ بھی کوئی رینویشن نہیں کرتی،اس عمارت میں رہنے والےلوگوں کے کو ہر وقت خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ آج یا کل یہ ڈھیر ہوجائے گئیاور کوئی نہ کوئی نقصان ہوگااسی طرح اس عمارت کے بنانے والے اور اس کے رکھ والوں کو گالیاں پڑھتی ہیں، اب یہ جو رہنے والے ہیں یہ تو عمارت سے فائدہ بھی لیتے ہیں اس میں رہتے ہیںاور برا بھلا بھی کہتے ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ وہ دوسری جگہ پر جائے ، دوسری بات یہ کہ اگر انتظامیہ اس کی ٹائم کے ساتھ ساتھ کام کرتی تو لوگ مطمئن ہوتے،
 پاکستان کی بھی یہ صورت حال ہےآپ کیسی سکول کا وزٹ کریں کیسی کالج یا یونیورسٹی کا شکر لگائے وہاں پر چند طالب علم اپنے ادارے اور اس کے نظام کے بارے میں شدید رائے رکھے گےاورساتھ میں وہاں سے تعلیم بھی حاصل کررہے ہونگے، کچھ اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگ بھی نالا نظر آرہے ہونگے حالانکہ وہاں سے تنخواہ اور مراعات بھی حاصل کررہے ہونگےیہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس ادارے کی بھلائی چاہتے ہیں اور وہاں پر ہونے والے بدنظمی کو برداشت نہیں کرتے ،
کسی سرکاری ہسپتال کا دورہ کریں وہاں پر زیر علاج مریض بھی خفہ ہونگےاور نرسوں اور ڈاکٹروں میں بھی کوئی خفا ہوگا ان کا بھی وہی مسلہ ہے جو اوپر بیان کیاگیا،
تھانوں اور کچہری کا تو یہ حال ہے کہ 90فیصد لوگ گالیاں دیتے ہیںاس کے برعکس پولیس اور انتظامیہ بھی لوگوں سے تنگ ہیں آخر مسلہ کیا ہے کہ اس رائج نظام کے ساتھ ہم رہتے بھی ہیں اور اس سے نالا بھی ہیں ان تمام مسائل کا حل کون نکالے گااس کا حل بڑا ہی آسان ہے چلو فرض کرلیں حکومت وقت خراب ہیں کسی کام کے لائق نہیں، ادارے تباہ پورے نظام کا بیڑہ غرق ہیں تو ہم کیسے ٹھیک کرئنگے، جن لوگوں سے نظام بنا ہے ان کو ٹھیک کرنا ہوگااور وہ کون لوگ ہیں وہ ہم ہیںوہ میں ہوں وہ آپ ہیں،اصل میں ہم بوسیدہ ہوچکے ہیں، اگر ایک طالب علم اگرر اپنی ڈیوٹی وقت پر کریں ایک استاد اپنا کام وقت پر کریں، ایک مزدور اپنا کام ایمانداری سے کریں ایک مالک مزدور کو وقت پر پیسے دیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :