خواتین کی اعلیٰ تعلیم میں شمولیت کی شرح مردوں سے زیادہ

جمعہ 25 دسمبر 2020

Zubair Bashir

زبیر بشیر

کسی بھی متوازن معاشرے کا قیام اور ترقی خواتین کی فعال شمولیت کے بغیر ممکن نہیں اور خواتین اپنا فعال کردار اسی صورت میں ادا کرسکتی ہیں اگر وہ تعلیم کی دولت سے آراستہ ہوں ۔تعلیم  کسی بھی قوم کے اجتماعی  احساس وشعور کو نکھارتی ہے اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کسی صفت و کمال سے وہ دل کی صفائی‘ فراخی اور وسعت حاصل نہیں کرسکتا جو علم کی بدولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

  لہذا مرد و خواتین کی تعلیم  کے میدان میں شرکت  بہت ضروری ہے۔چین میں خواتین ملکی ترقی کے تمام شعبوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہی ہیں۔
چین  کےقومی شماریات کے بیورو نے منگل کے روز چینی خواتین کی  سال 2011 تا سال 2020  کی ترقیاتی آؤٹ لائن  رپورٹ جاری کی۔

(جاری ہے)

اس رپورٹ کے سال 2019 تک کے اعداد و شمار  بہت زیادہ حوصلہ افزا ہیں  اس رپورٹ کے مطابق  2019 میں پوسٹ گریجویشن کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے والی خواتین کی تعداد 1.45 ملین تھی ،   جو  کل تعداد کا 50.6 فیصد ہے۔

اسی طرح  انڈرگریجویٹ کالجوں میں خواتین کی تعلیم میں شمولیت کی شرح 51.7 فیصد اور اعلیٰ تعلیم میں شمولیت کی شرح  58.7 فیصد تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق چین میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم میں شمولیت کی شرح مردوں سے زیادہ ریکارڈ کی گئی ہے۔
 زیادہ سے زیادہ خواتین کا  اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب  یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ اعلیٰ عہدوں پر خواتین کی تعیناتی، خواتین کو زیادہ مشاہروں کا ملنا ، خواتین کی مالی حیثیت میں اضافہ ہونا اور خواتین  کی معاشرتی حیثیت میں اضافہ۔

ایک پرانی کہاوت ہے کہ ہ مرد کو تعلیم دینے کا مطلب فرد کو تعلیم دینا ہے جبکہ عورت کو تعلیم دینے کا مطلب پورے کنبے  کو تعلیم دینا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین زیادہ تر وقت اپنے کنبے ، خاص کر بچوں اور بزرگوں کے ساتھ گزارتی ہیں ، اور اسی وجہ سے وہ اپنے اور قوم  مستقبل کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔
1950 کی دہائی میں ، جب چین نے ناخواندگی کے خاتمے کے لئے ایک مہم شروع کی تو ، حکام نے خواتین کو تعلیم دینے پر خصوصی توجہ دی اور تین سالوں میں ، 100 ملین سے زیادہ افراد خواندہ افراد کی صفوں میں شامل ہوگئے۔

اور 2010 تک ، ناخواندگی کی شرح 5 فیصد سے نیچے آچکی تھی۔ کچھ دوسرے ترقی پذیر ممالک نے سن 1970 کی دہائی میں چین کے ماڈل کی کاپی کرنے کی کوشش کی ، لیکن ناکام رہے کیونکہ انہوں نے خواتین کو تعلیم دینے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔
چین میں یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد پورے ملک میں ان گنت اساتذہ کی کاوشوں کے بغیر ممکن ہی نہیں تھی۔

جانگ گومی نے ، جنہوں نے ایک ہائی اسکول کی بنیاد رکھی ، جو جنوب مغربی چین کے صوبہ یونان کے شہر ، لیجیانگ میں 2008 میں لڑکیوں کے لئے تعلیم مہیا کرتا تھا ، نے  تن تنہا پچھلے 12 سالوں میں 1200 خواتین کو کالجوں میں داخلے میں مدد فراہم کی۔
ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی آنے والی نسلوں کی تعلیم وتربیت بہتر انداز میں ہو اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تربیت کرنے وا لے ہاتھ باشعور اورتعلیم یافتہ ہوں۔

یہ تعلیم ہی ہے، جس کی بدولت کسی بھی معاشرہ کے لوگوںمیں شعور بیدار کیا جاسکتاہے اور تعلیم کی کمی ہی بہت سی معاشرتی بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے ۔ماں کی گود چونکہ بچے کے لیے پہلی درسگاہ ثابت ہوتی ہے، اس لیے یہ درسگاہ جتنی باشعور اور تعلیم یا فتہ ہوگی عین ممکن ہے کہ اتنی ہی بہتر انداز میں بچوں کی تعلیم وتربیت ہوپائے۔ اسی لیے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں ماہرین کی رائے ہے کہ جو پیسہ لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ کیا جارہا ہو، سمجھ لیں کہ وہ قوم کے لیے سرمایہ کاری کے طور پر خرچ کیا جارہا ہے۔


پاکستان میں بھی تعلیم نسواں کا شعور مضبوط ہو چکا ہے۔ خواتین اعلیٰ تعلیم اور دیگر شعبوں میں مثالی کردار ادا کر رہی ہیں ۔مہنگائی کے اس دور میں ایک پڑھی لکھی عورت، چاہے وہ بیوی کے روپ میں ہو یا بہن کے روپ میں،معاشی طورپر مستحکم ہونے میں آپ کا ساتھ دے سکتی ہے ۔اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو وہ کوئی بھی عمدہ نوکری حاصل کرکے مہنگائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر لڑکی کو تعلیم ضرور دینی چاہئے تاکہ مستقبل میں کسی بھی ناخوشگوار صورت حال میں وہ اپنے پاؤں پر خود کھڑی ہو سکے اور کسی دوسرے پر بوجھ نہ بنے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :