بوآئو ایشیائی فورم کی 20 ویں سالگرہ

منگل 20 اپریل 2021

Zubair Bashir

زبیر بشیر

سال2021بوآئو ایشیائی فورم کے قیام کی 20 ویں سالگرہ کا سال ہے۔ اس فورم نے قیام سے اب تک ایشیائی ممالک کی ترقی میں قابل ذکر کردار ادا کیا ہے۔ بوآؤ ایشیائی فورم سے خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک دوسرے کی ترقی میں شامل ہونے کا موقع میسر آیا ہے۔اپریل دو ہزار تیرہ میں چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے بو آو  ایشیائی فورم کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ  اپنے سفارتی تصورات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چین خوشگوار ہمسائگی کو مضبوط بناتے ہوئے باہمی فائدے  کی بنیاد پر  تعاون کو فروغ دے گا اور  ہمسایہ ممالک چین کی ترقی سے مستفید  ہوں گے ۔

 
بوآئو ایشیائی فورم  کے سالانہ اجلاس کے انعقاد سے قبل اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل اور بوآئو ایشیائی فورم کے چیئرمین بان کی مون نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بوآئو ایشیائی فورم کے 20 سال، زمانے کے ساتھ آگے بڑھنے کے 20 سال ہیں، اور چین کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ قریب سے جڑے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

بوآئو ایشیائی فورم اور چین نے ایک دوسرے کے ساتھ ترقی کی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ مستقبل میں بوآئو ایشیائی فورم یقینی طور پر ایشیاء سے باہر جائے گا اور بین الاقوامی امور کی وسیع رینج میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرے گا۔
بوآئو ایشیائی فورم کے قیام کی 20 ویں سالگرہ منانے کے لئے بان کی مون نے "ایشیا اور دنیا کے مشترکہ مستقبل کے لئے"کے عنوان پر ایک مضمون لکھا۔ اپنے مضمون میں انہوں نے نشاندہی کی کہ نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بوآئو ایشیائی فورم بدلاؤ جاری رکھے گا، لیکن جو مستقل ہے وہ باہمی تعاون اور باہمی مفادات ہیں، صرف اسی طرح ایشیاء اور دنیا کے مشترکہ مستقبل کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔


چینی اکیڈمی آف سوشل سائنسز کےانسٹی ٹیوٹ آف ایشیاء پیسیفک اور عالمی حکمت عملی کے محقق شو لی پھنگ نے اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ آٹھ برسوں میں خوشگوار ہمسائگی سے لے کر " دی بیلٹ اینڈ روڈ : انیشیٹو تک  چینی  خارجہ امور کے حوالے سے شی جن پھنگ کے  نئے تصورات اور نئے اقدامات  سے  چین کی سفارت کاری کو ایک نئی بلندی حاصل ہوئی ہے ۔


چین کی خارجہ امور یونیورسٹی کے سینٹر برائے اسٹریٹجک اینڈ پیس ریسرچ کے ڈائریکٹر  سو ہاو  نے  واضح کیا کہ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران ، چین اور  کمپوڈیا ، لاؤس ، پاکستان اور قازقستان سمیت   دیگر  ہمسایہ ممالک  نے دو طرفہ  اتفاق رائے  کی بنیاد پر  ہم نصیب معاشرے  کی تشکیل کی کوشش کی ہے ، اور  اس قسم کے ہم نصیب معاشرے کا قیام در اصل علاقائی تعاون کے ایک مجموعی ڈھانچے کے تحت کیا جا رہا ہے ۔

اس طرح ایشیا کے معاملات سے ایشیائی لوگوں کے  مشترکہ طور پر نمٹنے اور ایشیا کے فروغ کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا جائے گا ۔
چینی اکیڈمی برائے سوشل سائنسز کی جانب سے   حال ہی میں جاری  "  چین اور ہمسایہ ممالک کے تعلقات کے حوالے سے بلیو  پیپر  " کے مطابق ، نوول کورونا وائرس کی وبا کے مسلسل اثرات کے تحت  روان سال تعاون کے ذریعے   وبا  کا مشترکہ مقابلہ  بدستور  چین اور ہمسایہ ممالک  کا ایک اہم مواد  ہے۔


سن 2013 کے بعد سے ، چین نے اپنی ہمسایہ سفارت کاری کی فعال طور پر منصوبہ بندی کی ہے ۔ایک طرف  اس نے موجودہ باہمی اور کثیر الجہتی تعاون کے طریقہ کار کے مستقل نفاذ اور ترقی  کو فروغ دیا ہے۔دوسری طرف اس نے نئی صورتحال اور نئی ضروریات کے مطابق  مزید تعاون کے نئے میکانزم اور پلیٹ فارم تیار کیے ہیں، اور پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کو بڑھانے کے لئے مشترکہ مفادات کا قریبی نیٹ ورک قائم کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت چین اور پڑوسی ممالک کے مابین مفادات کا انضمام ایک نئی بلندی پر پہنچ چکا ہے۔
چین کی خارجہ امور یونیورسٹی کے سینٹر برائے اسٹریٹجک اینڈ پیس ریسرچ کے ڈائریکٹر  سو  ہاؤ نے نشاندہی کی کہ چین مشرقی ایشیاء 10 + 3 ، شنگھائی تعاون تنظیم ،  بوآؤ  ایشیائی فورم اور دیگر فریم ورک  کے تحت موجودہ تعاون کو مزید گہرا کرنے کا کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ  علاقائی تعاون کو  فعال طور پر بڑھانے کےلیے نئے پلیٹ فارم کے قیام کی کوشش بھی کی گئی ہے ۔
چین آج کی دنیا میں تعاون کو ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھتا ہے۔ چین نے ہمسائیہ تعاون کے اپنے تصور کو "دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو" کی صورت میں مزید آگے بڑھایا ہے۔   رواں برس بوآو ایشیائی فورم اٹھارہ اپریل دو ہزار اکیس کو  چین کے شہر ہائی نان میں شروع  ہوا ۔

اسی  دن  منعقدہ پریس  کانفرنس میں دو اہم رپورٹس جاری کی گئیں ۔ " ایشیائی معیشت کا مستقبل اور یکجہتی کا عمل " نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیائی معیشت 2021 میں بحالی کے ساتھ ترقی  کرے گی  ، اور  اس کی  شرح نمو 6.5 فیصد سے تجاوز کرنے کی توقع ہے ۔
دوسری رپورٹ جس کا عنوان ہے "  پائیدار ترقی والا ایشیا اور  دنیا " میں  علاقائی  نمائندگی کرنے والے  متعدد  ایشیائی ممالک   کی ترقیاتی کارکردگی کے تجزیے کے ذریعے ، یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ صحت ، بنیادی ڈھانچے ،  گرین ترقی میں تبدیلی اور ڈیجیٹل  تقسیم  ایسی رکاوٹیں  بن چکی ہیں جو موجودہ پائیدار بحالی کو محدود کرتی ہیں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :