ادب سے بے ادبی تک

ہفتہ 10 اپریل 2021

Zulfiqar Ali Bukhari

ذوالفقار علی بخاری

ارے ۔ارے۔آپ کیا سمجھ رہے ہیں ہم آج آپ کو اخلاقیات کا درس دیں گے؟
ارے بھئی!
ہماری بات کو یہاں سنتا ہی کون ہے؟
ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ” سنتا کون ہے؟“۔
ویسے یہ موضوع اس لئے بھی ہم نے منتخب کرلیا تھا کہ آج کے دور میں اس پر بات کرنا بے حد ضروری ہو چکا ہے۔آپ کے ساتھ بھی یہ ہو چکا ہوگا کہ آپ کے” ادب “کرنے کے جواب میں ”بے ادبی“ کی جاتی ہے۔

یہ ” بے ادبی“ کئی طریقوں سے کی جاتی ہے، اب کہاں تک سنائیں اور کہاں تک آپ سنیں گے۔آپ عقلمند ہیں اس لئے ہمارے اشارے کو ازخود سمجھ لیں۔
دیکھیں جی!
سب سے پہلے تو ہم اپنے گھر کے اندر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اکثر ہم اپنے اوالدین کے ساتھ بھی کچھ ایسا سلوک کرتے ہیں جو کہ بے حد” بے ادبی“ کے زمرے میں آتا ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے دین کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ ہمیں والدین کا خوب ادب واحترام کرنا چاہیے مگر ہم آج غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نا چاہتے ہوئے بھی کبھی نہ کبھی والدین سے ” بے ادبی“ کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔

یہ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے ہم اپنے دوستوں، بہن بھائیوں اور رشتے داروں تک سے کر جاتے ہیں ، اپنی غلطی جانتے ہوئے بھی اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں ، حالانکہ ایسا کرلیا جائے تو پھر ہم بے ادب نہیں کہلائے جائیں گے۔
اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم آج ” بے ادبی“ کریں گے تو کل کلاں کو یہ ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے کہ مکافات عمل تو اسی دنیا میں ہی ہوتا ہے۔

دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ کسی کی جانب سے کچھ نہ کچھ ایسا ہو کچھ ہوتا ہے کہ کوئی بے ادبی کرتا ہے یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ” چور مچائے شور“، یعنی کسی کی طرف سے بے ادب ہونے کا دعویٰ کیا جانا پس پردہ بہت کچھ داستانیں ان کہی سی چھپائے ہوتا ہے۔
اگر ہم ” ادب“ کرتے ہیں تو پھر ہمارے لئے دنیا وآخرت سنور جاتی ہے کہ ماں کے قدموں تلے جہاں جنت ہے، وہیں باپ جنت کی کنجی ہے۔

آپ اس لئے ہر حال میں کوشش کریں کہ اپنے جذبات کو قابومیں رکھتے ہوئے والدین کا بھرپور احترام کریں۔اب بات والدین کے احترام کی ہو یا پھر کسی بھی انسان کی ہو،راقم السطور کے نزدیک ادب واحترام تو ہر شخص کا کرنا چاہیے کیونکہ جب آپ دوسرے کی ” عزت وقار“ سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر آپ ازخود” بے وقعت“ ہو جاتے ہیں۔
آپ جس کی ”بے ادبی“ کریں گے وہ کیا آپ کو ” عزت واحترام“ دے سکے گا، اگر کوئی دیتا ہے تو پھر یہ اس کا ” اعلی ظرف “ ہوگا۔

ادب سے بے ادبی کا راستہ چند لمحات میں طے ہو جاتا ہے مگر اس کے اثرات برسوں ہم پر اور دوسرے شخص پر رہتے ہیں۔ اس لئے کوشش کریں کہ آپ ” بے ادبی“ سے گریز کریں کہ یہ نہ صرف آپ کو جہاں پچھتاوئے کا شکار رکھے گی، وہیں دوسرا شخص بھی ” غمگین “ رہ سکتا ہے۔اس لئے کوشش کریں کہ بے ادبی کرنے سے دور ہی رہیں۔یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ سچ بیان کرنا کبھی بھی بے ادبی نہیں ہوسکتا ہے، البتہ انداز بیان بے ادبی والا قرار دیا جا سکتا ہے۔

دوسری طرف یہ بھی کوشش کی جانی چاہیے کہ آپ کے غلط برتاؤ پر کسی کے صبر کا دامن نہ چھوٹ جائے اور وہ پھر بے ادبی پر مجبور ہو جائے کہ انسان جذبات میں کبھی بھی آسکتا ہے۔
ہمارے ہاں ادب سے وابستہ لکھاریوں کو اس حوالے سے بے حدمحتاط ہو کر چلنے کی ضرورت ہے تاکہ بطور لکھاری اُن کے حوالے سے تاثر منفی نہ ہو سکے اور یہ بات بھی نہ کی جا سکے کہ ادب سے وابستہ لوگ بے ادب ہیں۔

اگر ادب کے جواب میں ادب کیا جائے گا تو پھر ناموری ہی حصے میں آتی ہے۔آپ کی ذرا سی بے ادبی آپ کا برسوں کا سفر ایک دم ختم کر کے رکھ دیتاہے۔
 یہ بات قابل غور ہے۔اس حوالے سے پاکستان و بھارت میں مشہور مرحوم شاعر راحت اندوری کا ایک قصہ آپ کو سنانا چاہوں گا۔
ایک مشاعرے میں راحت اندوری مرحوم کے ساتھ کسی نے بدتمیزی کر دی تو انہوں نے اُس کے جواب میں کہا تھا کہ” میں جس جگہ پر پہنچا ہوں، اُ س تک آنے میں چالیس سال لگ گئے ہیں، مگرمجھے تمہاری جگہ تک پہنچنے میں محض ایک منٹ لگے گا“۔
یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ ادب سے بے ادبی کا سفر محض ایک منٹ کا ہے مگر یہ آپ کی ساکھ عمر بھر کے لئے خراب کر دیتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :