بڑا ادیب کون ہے؟

پیر 8 مارچ 2021

Zulfiqar Ali Bukhari

ذوالفقار علی بخاری

” لفظوں کے ذریعے جذبے، احساس یا فکر وخیال کے اظہار کو ” ادب “کہتے ہیں اور ادب کی مختلف اصناف پر لکھنے والے کو ادیب کہتے ہیں“۔
اس موضوع پر لکھنے لگا تو اچانک سے یہ بات یاد آگئی ہے۔
”بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہو سکتا ہے، اس لئے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے“۔


اب معلوم نہیں کس نے یہ کہی تھی مگر اس موضوع کی مناسبت سے بیان کر دی ہے کہ ہمارے ہاں ادبی محفلوں میں اور بسا اوقات نجی محفلوں میں بھی جب مختلف لکھنے والے گپ شپ کرتے ہیں تو وہ اپنی ذات کو اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے پر برتری حاصل کر جائیں۔یہ اکثر پُرانے لکھنے والوں کی محفلوں میں دیکھنے کو زیادہ ملتا ہے کیوں کہ نئے لکھنے والے تو اپنا نام بنانے میں مصروف عمل ہوتے ہیں وہ چونکہ خود بھی آگے بڑھنے کی جہدوجہد کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے کر چلیں۔

(جاری ہے)


دوسری طرف برسوں سے لکھنے والے چونکہ ایک اپنا نام بنا چکے ہوتے ہیں اس لئے اُن کی ترجیحات وقت کے ساتھ کچھ اور ہو جاتی ہیں۔ہمارے ہاں اس حوالے سے بڑی باتیں بڑے ادیبوں کے بیچ ہوتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں ادب اطفال کا بڑا” ادیب/ لکھاری“ کون ہے۔اس پر بات کرنے سے قبل آپ کو کچھ بتانا چاہ رہا ہوں تاکہ آپ میری بات کے سیاق وسباق سے بھرپور طور پر واقف ہو جائیں کہ میں دراصل کیا بات کہنا چاہ رہا ہوں۔


آپ نے بھی میری مانند ” ابن صفی“، ” اشتیاق احمد“ اور” اے حمید“کے ناموں کو سن رکھا ہوگا۔ان کے کارہائے نمایاں اُن کو ایک عظیم اور بہترین لکھاری ثابت کرتے ہیں۔اسی طرح سے ہم ” نذیر انبالوی“ ،” تسنیم جعفری“،” احمد عدنان طارق“، ” جاوید بسام“،”امجد جاوید“،” محمد عرفان رامے“،” نوشاد عادل“ اور” ابن آس “،” انو کمار“،”اروپ کما ردتہ“،”نتاشا شرما“،”پارو آنند“،”سراج عظیم“ اور” وکیل نجیب“ کے نام بھی لے سکتے ہیں۔

ان ناموں کے علاوہ بھی کئی نام ہیں جو کہ اپنی ذات اور اپنے علمی خدمات کی بنا پر بہترین لکھاری/ادیب ہیں۔اگر میں کہوں کہ یہ سب بڑے ادیب/لکھاری ہیں تو پھر آپ مجھے بے شمار لکھاریوں/ادیبوں کے نام گنوانا شروع کر دیں گے کہ جناب فلاں فلاں کے کارنامے یہ ہیں، اُن کی خدمات یہ ہیں۔
آپ مجھے یہ تسلیم کروانے کے لئے جو بھی منطق بیان کریں گے ، ہو سکتا ہے کہ میں آپ کی باتوں سے متفق ہو جاؤں یا پھر اپنی دلیل سے ثابت کروں کہ نہیں جن کی میں بات کر رہا ہوں، وہی سب سے بڑے لکھاری ہیں۔

میری بات کے جواب میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں محض جانبداری دکھاتے ہو ئے ان کے حوالے سے ایسا کہہ رہا ہوں۔
اگر میں ایسا کہہ رہا ہوں تو پھر یہ بات کہنے کا مجھے بھی حق ہے کہ آج ایسے کتنے نامور لکھاری ہمارے اردگرد موجود ہیں جو کہ اپنی ذات کوبڑا ” ادیب/لکھاری“ کے اہل سمجھتے ہیں۔کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کی شان میں ایسے قصیدے پڑھے جاتے ہیں کہ کوئی بھی کم علم شخص یا پھر ادبی دنیا سے باہر کے لوگ اُس کو واقعی ایسا سمجھ لیتے ہیں۔

اگر کوئی اُن کے حوالے سے کوئی بات کرتا ہے تو اس کو ”بے ادبی“ تصور کی جاتی ہے۔اب وہ تو ” ادب“ کے دائرے میں رہ کر ہی کچھ عرض کر رہا ہوتا ہے مگر سمجھنے والے اس کو ” گستاخ“تصور نہیں کرتے ہیں ،یہ فریضہ چند دوسرے احباب سرانجام دیتے ہیں۔
اس بحث کو ہم یہاں چھوڑ کر اس نکتے پر بات کرتے ہیں کہ بڑا ادیب/لکھاری ہم کس کو کہتے ہیں۔
کچھ نظریات کے مطابق جس نے بے شمار علمی خزانہ چھوڑا ہے ،اُسے کہا جا سکتا ہے۔


کچھ نظریات ایسے بھی ہیں جو کہ نت نئے” ادبی رجحانات“ متعارف کروانے والوں کو ایسا درجہ دیتے ہیں۔
کچھ نظریات کے مطا بق بڑا ” ادیب/لکھاری“ وہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنے اردگرد موجود لوگوں کو یوں فیض یاب کرے کہ وہ اپنی ذات میں”بڑا “ ہو جائے۔
کچھ نظریات یہ بھی ہیں کہ کوئی کچھ ایسا لکھے جو لوگوں کو اپنے اندر تبدیلی لانے پر مائل کر دے یا بہترین تفریح مہیاکرے تو وہ بھی ہو سکتا ہے یعنی ایسا لکھے جو برسوں اُس کے ذہن میں رہے اوراُسے سرشارکرتا رہے۔


ہمارے ہاں ” بڑے ادیب/لکھاری“ کے لئے ایک مخصوص سوچ رکھی جاتی ہے کہ اگر کوئی خاص امور اورخدمات سرانجام دے رہا ہے تو پھر وہ یہ کہلائے جانے کے لائق ہے۔ہم اُن کے علاوہ دیگر کسی بھی ” ہستی“ کو اس اعزاز سے ” سرفراز“ نہیں کرتے ہیں۔
راقم السطور کے نزدیک ہر وہ لکھنے والا بڑا ” ادیب/لکھاری“ ہے،جو ادبی دنیا میں رہ کر دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر رہا ہے۔

اپنے علم سے دوسرے لکھاریوں/ادیبوں کو سیراب کر رہا ہے۔اس میں کسی بھی عمر کا فرق نہیں رکھتا ہے ۔وہ اپنی ذات میں ایک ” جگنو“ کی مانند ہے جو اپنے اردگرد بس روشنی ہی پھیلاتا ہے۔اپنے دل میں کسی بھی طرح کا ” بغض “ نہیں رکھتا ہے۔اپنے اندر ” حسد“ کا مادہ نہیں رکھتا ہے۔دوسرے کونیچا دکھانے کے لئے اُسے اپنے حواریوں کی مدد سے ” رسوا“ کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے۔

وہ اپنے لکھے ہوئے مواد سے بڑے قارئین کے دل میں بھی جگہ بنا تا رہتا ہے یعنی ایسا لکھا کہ وہ دل میں اُتر جائے اوربرسوں یاد بھی رہے ۔
ادب سے وابستہ ہو کر ” بے ادبی“ کرنے والوں کو ہم کس طرح سے ” بہترین لکھاری“ کاخطاب دے سکتے ہیں۔ہم کس طرح سے ایک ایسے فرد کو بہترین یا بڑا ادیب /لکھاری کہہ سکتے ہیں جب اُس نے اپنی زندگی میں کسی کی حق تلفی کی ہو یا پھر وہ ہم عصر یا پھر نئے لکھاریوں کو جذباتی طور مجروح کرنے کا ذمہ دار ہو۔

اگر کوئی ” لکھاری“ اپنے قلم کی ”حرمت “ کو فروخت نہیں کرتا ہے اور ”عطا“ کرتے ہوئے ”منزل“ تک پہنچ رہا ہے تو میری نظر میں اُس سے بڑا ” لکھاری/ادیب“ کوئی نہیں ہے۔اگر ان کی تعداد زیادہ بھی ہے تو وہ سب بیک وقت اس اعزاز کے مستحق ہیں۔سب ہی اپنی اپنی جگہ پر ” بھاری پتھر“ کی مانند ہیں ۔جس طرح سے کرکٹ کے کھیل میں ” ڈان بریڈ مین“، بھارتی فلم انڈسٹری میں”امیتابھ بچن“ اور پاکستانی ادب اطفال میں” اشتیاق احمد“ اپنا ایک مقام رکھتے ہیں اُسی طرح سے دیگر اُن کے ہم عصر کھلاڑی، اداکار اور لکھاری بھی اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔

ہم اُن کی اہمیت کو جھٹلا نہیں سکتے ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے انداز اورذات کی وجہ سے اپنی ایک خصوصیت رکھتا ہے، اسی طرح سے لکھاری حضرات بھی خاصیت کے حامل ہیں۔ہر ایک کے لکھنے کا اپنا ایک انداز ہے جس کی وجہ سے قارئین میں مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔
جیسے پاکستان کے ادب اطفال میں ’ نذیر انبالوی“ صاحب جیسا اب ہر کوئی تو نہیں ہو سکتا ہے ،اس لئے کہ وہ جو ہیں ، وہ اپنی ایک مخصوص پہچان کے حامل ہیں،اُن کی انفرادیت کو کوئی بھی دوسرا نہیں چھین سکتا ہے۔

اگر کوئی اُن جتنا ادبی قد رکھتا ہے تو ہی اُن کی برابری کا سوچ سکتا ہے، تاہم وہ اپنی جگہ ایک اہمیت رکھتا ہے ۔اُن کی مانند کوئی کوئی ہی ہوتا ہے جو اپنے مقاصد کو بخوبی طور پر حاصل کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔اس لئے ادبی دنیا میں اس رجحان کے حوالے سے ہمیں اپنی رائے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں اُن لکھاری حضرات کو ہی ” بڑا “ قرار دینا چاہیے جو کہ اپنے قول وفعل ایک ہی رکھتے ہیں جو ایسا نہیں کر رہے ہیں اُن کو ہم محض اُن کی خوشنودی کی خاطر ایسا کہنے سے باز رہیں تو بہتر ہے۔

آپ نے ایک کہاوت سنی ہوگی کہ” محبت اندھی ہوتی ہے“۔ محبت کرنے والوں کے جذبات دوسروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتے ہیں،اسی طرح سے ہم کسی کی ” اصلیت “ جان کر سچ بولنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے ، اس لئے ہمیں اگر کوئی ہم سے آگے بڑھ رہا ہے اور کچھ اچھا کرکے نام بنا رہا ہے تو اس سے حسد کی بجائے اُس کی کامیابی سے لطف اندوز ہونا چاہیے یہ نہیں کہ ہم اُس کے حوالے سے لوگوں میں بدگمانی پھیلائیں ،ایسا کرنے سے وہ خراب نہ ہواتو ہماری ساکھ ضرور متاثر ہوگی۔


ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ادبی دنیا میں ہر وہ لکھاری جوادبی دنیا میں رہ کر دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر رہا ہے، وہ ایک” بڑا ادیب/لکھاری “ہے ۔اس کے لئے کتب کے انبار، تمغہ جات ضروری نہیں ہیں۔جو بھی ادبی دنیا میں آکر اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے، سچے دل سے کام کر رہا ہے، عطا کرتا جا رہا ہے،صلے کی پروا نہیں کرتا ہے اورمعیاری مواد قارئین کو پیش کر رہا ہے، وہی سب سے بڑا ادیب /لکھاری ہے۔اس لئے لکھاریوں کے بیچ اس مقابلے کی ” جنگ “ کو ختم ہونا چاہیے کہ کون بڑا لکھاری/ادیب ہے،وہی ہے جو بیان کردہ مذکورہ اوصاف کا حامل فردہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :