کہانی، مدیر اور لکھاری

جمعرات 20 مئی 2021

Zulfiqar Ali Bukhari

ذوالفقار علی بخاری

ہر بچے کو کہانی سننے کا شوق ہوتا ہے اور اس کا یہ شوق دیکھ کر ہی نت نئی کہانیاں اُسے سنائی جاتی ہیں۔بچوں کو اس بات سے غرض نہیں ہوتی ہے کہ یہ کہانی ادبی معیار پر پورا اُترتی ہے یا نہیں، اُسے بس اپنی تفریح اور کچھ منفرد انداز میں سیکھنے کا جذبہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کہانیاں سنتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں۔
اب یہاں یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں کو یہ علم نہیں ہوتا ہے کہ کہانیاں کس ادبی اوزان کے تحت شائع کی گئی ہیں، اُن کو بس اپنی تفریح درکار ہوتی ہے یا پھر اُن کو وقت گذاری کے لئے عمدہ سبق آموز مواد پڑھنا ہوتا ہے تاکہ اپنے آپ کو محظوظ کرسکیں ۔

وہ یہ بھی نہیں جانتے ہیں کہ اس کہانی کے پیچھے لکھاری کی کتنی محنت ہے یا پھر کسی بھی رسالے کے مدیر نے اس پر کتنی ازسرنو اپنے قلم کی جادوگری دکھا کر اس کو قابل اشاعت بنایا ہے۔

(جاری ہے)


ہمارے ہاں بدقسمتی سے کہانی ،لکھاری اور مدیر کے درمیان بہت سے تنازعات میں الجھ گئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اُس نے جو لکھ دیا ہے وہ پتھر پر لکیر کی مانند ہے۔

یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ لکھاری محض چند سطروں کی تبدیلی پر ہی آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور اگر پیراگراف ہی ”اُڑا“ دیا جائے تو پھر یوں سمجھیں کہ وہ ” ننگی تلوار“ مدیر کے پیچھے لے کر بھاگتے ہیں۔کچھ لکھاری حضرات معذرت کے ساتھ عرض کرنا ہے کہ اپنی کہانی کو ایک بار لکھنے کے بعد وبارہ پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ہیں۔اپنی اصلاح کو بھی ناگواری سے دیکھتے ہیں جس طرح سے وہ کسی بھی مدیر کی جانب سے اپنی تحریر کو قابل اصلاح ہوتا دیکھتے ہیں۔

اگر تحر یر ناقابل اشاعت ہو جائے تو پھر ” سرد جنگ“ لکھاری اور مدیر کے درمیان شروع ہو جاتی ہے۔اس میں مزید اضافہ تب ہو جاتا ہے جب وہی ” کہانی“ کسی اور رسالے میں بڑے آب و تاب سے ” جلوہ گر“ ہوتی ہے۔کچھ مدیر حضرات تو ازسرنو سے بھی کہانیاں لکھ کر شائع کر دیتے ہیں اور نام محض لکھاری کا ہی بنتا ہے ۔
یہی وہ تنازعات ہیں جس کی وجہ سے آج لکھاریوں اورمدیر حضرات کے درمیان کہانی” سسک“ رہی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ”کہانی“ کی بسا اوقات موت واقع ہو جاتی ہے۔

اس کی ذمہ داری اگر لکھاری پر پڑتی ہے تو کبھی مدیر پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اتنی نوک پلک درست کر دیتا ہے کہ لکھاری جو بیان کرنا چاہتا ہے وہ کچھ کا کچھ اور ہی نظر آنے لگتا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جو کہانی کار بتانا چاہ رہا ہے ، مدیر اُس کے برعکس کچھ اور ہی سمجھ رہا ہے اور پھر ” فساد“برپا ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے۔
کہانی کا بنیادی مقصد راقم السطور کی نظر میں کچھ نا کچھ پڑھنے والوں کو عطا کرنا ہے اور اگر کوئی بھی کہانی یہ کردار بھرپور طور پر ادا کر رہی ہے تو پھر اُس کو شائع ہو جانا چاہیے۔

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کہانی شائع ہونے کا ایک معیار ہونا چاہیے مگراس حوالے سے مربوط حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے کیوں کہ ایک جگہ اگر ” کہانی“ ناقابل اشاعت ہوئی ہے تو دوسرے جگہ کیسے شائع ہوگئی ہے۔یہ سوال بے حد سنگین نوعیت کا ہے جو کہ کہانی سے زیادہ مدیر کی اہلیت پر سوال کھڑے کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لکھاری بے حد سخت لب و لہجے کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔


اب یہ ایک بظاہر معمولی نظر آنے والا نکتہ بہت سنگین ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا ہے کہ پھر بات دور تک جاتی ہے مگر یہ سوچنے کی بات ہے کہ اس کو حل کرائے جانے کی کوشش آج تک کیوں نہیں ہوئی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہر رسالے کا مدیر ایک مخصوص نقطہ نظر رکھتا ہے جس کی وجہ سے کہانیوں اور دیگر تحریروں کی اشاعت ممکن ہوتی ہے ، دوسرے رسالے کے مدیر کی سوچ اُس سے بھی الگ ہو سکتی ہے یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رسالے کے مالکان کی خواہش کچھ اور ہو۔


یہی وجہ ہے کہ کہانی کی اشاعت نہ ہونے پر لکھاری اور مدیر کے درمیان گفتگو ادب سے بے ادبی کی جانب اپنا رخ موڑ لیتی ہے۔ ہمیں اس حوالے سے بھرپور کام کرنا ہوگا تاکہ لکھاریوں کو اپنی کہانیوں کے حوالے سے وہ منطقی دلیل مل سکے جس کے بعد یہ ” جھگڑے“ ختم ہو سکیں۔راقم السطور کے بقول کہانی اگر” کہانی “ہونے کے معیار پر پورا اُترتی ہے تو اُسے شائع کر دینا چاہیے۔

اگر رسالے کے معیار کی بات ہے تو پھر اگر معیار کسی ایک لکھاری کے لئے ختم یا نر م ہو سکتا ہے تو پھر اس کو تمام لکھاریوں کے لئے ہونا چاہیے۔جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک ” کہانی“ لکھاری اور مدیر کے بیچ مسائل کھڑے کرتی رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چند بہترین کہانیاں بھی محض اس وجہ سے شائع ہونے سے رہ جاتی ہیں کہ وہ ”کسی منطقی مغالطے“ کے ترازو پر وزن میں کم دکھتی ہیں ، لیکن وہی دیگر رسائل میں خوب تزئین و آرائش کے ساتھ شائع ہو تی ہیں۔

راقم السطور اس حوالے سے یہی عرض کرنا چاہتا ہے کہ اگر کہانی میں بچوں کی دل چسپی کا سامان موجود ہے اور اگر وہ قابل اشاعت ہونے کے لائق ہے تو پھر اُسے شائع کر دینا چاہیے، اُس کے بعد وہی کہانی اُس لکھاری کی ساکھ کا تعین کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ چند کہانیاں ہی کسی بھی لکھاری کی پہچان کے لئے کافی ہوتی ہیں جو کہ قارئین کو پسند آسکتی ہیں تو بہتر یہی ہوگا کہ ” کہانی “ پر تنازعات کھڑے کرنے کی بجائے وہ راہ اختیار کی جائے جس کے بعد ”کہانی“ اپنی ساکھ خود بنا ئے اور مدیر اور لکھاری کو بتائے کہ وہ کتنی بڑی شاہ کارہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :