ادب اطفال کے فروغ کے لئے اہم اقدامات

پیر 7 جون 2021

Zulfiqar Ali Bukhari

ذوالفقار علی بخاری

مجھے اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے ادب کے حوالے سے خوب کام ہو رہا ہے۔اس حوالے سے سرکردہ افراد اور اداروں کے نام بھی گنوائے جاتے ہیں جو کہ اپنی جگہ بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا ہوں کہ ہمارے ہاں ادب اطفال پر بھرپور کام نہیں ہو رہا ہے مگر دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو ادب اطفال سے بھرپور طور پر متعارف نہیں کروایا جا رہا ہے، یہی وہ بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے آج ادب اطفال کی کتب اوررسائل کی فروخت زیادہ نہیں ہو رہی ہے۔

اگرچہ اس کی دیگر وجوہات ہیں مگر اہم ترین وجہ یہی ہے کہ بچوں کو اس جانب راغب نہیں کیا جاتا ہے وہ وہ کتب یا رسائل کو پڑھیں۔
ہمارے ہاں اسکولوں میں اوّل تو لائبریری نہیں ہے اور جہاں ہے وہاں پر بچوں کی دل چسپی کے لئے مواد کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ لائبریری جانے سے گریز کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

اسکول میں پڑھانے والے ا ساتذہ بھی بچوں کوبہت کم لائبریری کے حوالے سے آگاہی دیتے ہیں جس کی وجہ سے لائبریری جانے کا رجحان ختم ہو چکا ہے۔


بہت سے افراد یہ کہتے ہیں کہ جن بچوں کو شروع سے ہی پڑھنے کی جانب راغب کیا جاتا ہے وہی بڑے ہو کر ادب کے شیدائی بنتے ہیں مگر اس جانب اب کس نے توجہ دلوانی ہے کہ کچھ سیکھنے کے لئے پڑھنا بے حد ضروری ہو چکا ہے اور جب تک سیکھا نہیں جائے گا تو تب تک کیسے کوئی اپنی ذات میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ہمیں آج بطور والدین اپنی ذمہ داری اگر بھرپور طور پر ادا کرنے کی فرصت نہیں مل رہی ہے تو کم سے کم بچوں کو رسائل وکتاب سے تو جوڑ دیں تاکہ وہ خود سے کچھ پڑھ کر سمجھ سکیں اور اپنی اصلاح کر سکیں۔


راقم السطور کی خواہش ہے کہ ادب اطفال رسائل کی قیمتیں اس قدرکم ہوں کہ وہ باآسانی ایک عام سے بچے کی دسترس میں بھی آسکیں، یہ کہنا بے حد غیر مناسب ہے کہ ایک مہنگے برگر پر تو خرچ کیا جا سکتا ہے لیکن ایک رسالے کو خریدنے پر اتنی رقم نہیں لگائی جا سکتی ہے۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جب قیمت ایک عام سے گھرانے کے فرد کے بچے کی دسترس میں ہوگی تو وہ ضرور رسالہ خرید نے کی جانب مائل ہوگا۔

اگر ایک بچے کے گھر میں پہلے ہی فاقہ کشی ہو رہی ہو اور اخراجات اس بات کی اجازت نہ دیتے ہوں کہ ایک رسالے کو سالانہ بنیادوں پر گھر بیٹھے حاصل کیا جا سکتا ہو یا پھر تمام رسائل کو لیا جا سکے تو بتائیں کس طرح سے ادب اطفال رسائل کو کوئی خرید سکتا ہے۔یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ رسالے کی قیمت کے ساتھ رسالے کا معیار بھی فروخت پر اثرات مرتب کرتا ہے اور اس حوالے سے بھرپور طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ رسائل تمام بچوں کی دسترس میں آسکیں،محض چند رسائل برسوں سے اپنے معیار کو قائم رکھے ہوئے ہیں، اسی وجہ سے والدین بچوں کو غیرمعیاری مواد پڑھنے سے باز رکھنے کے لئے رسائل سے دور رکھتے ہیں۔


ہمیں تو یہاں تک سننے کو مل چکا ہے کہ آپ کیوں رسائل کو بند کروانے پر مائل ہو رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ادب اطفال کے رسائل کے مالکان تک یہ بات پہنچانے کی ضرورت محسوس کی ہے کہ اگر وہ اپنے رسالے میں شائع ہونے والی تحریروں پر معاوضہ دینا شروع کر دیں تو ہر لکھاری خاندان بھر میں یا کم سے کم چند دوستوں کو ضرور اعزازیہ سے رسائل خرید کر بطور تحفہ دے سکتا ہے اوریہ رسالے کی فروخت پر بھرپور اثر ڈال سکتا ہے۔

جس سے رسائل کو فائدہ ہو سکتا ہے، اس حوالے سے رسائل اگر کوشش کریں تو وہ اشتہارات کے حصول کو ممکن بنا کر نہ صرف سستا رسالہ شائع کر سکتے ہیں بلکہ اشتہارات سے خطیر رقوم ملنے پر لکھاریوں کو بھی معاوضہ دے سکتے ہیں جو کہ ادب اطفال کے فروغ میں آکسیجن کا کردار ادا کر سکتا ہے۔اس حوالے سے حکومت کم سے کم اگر رسائل/ کتب کے لئے درکار کاغذ ہی سستا کر دے تو کم قیمت پر شائع ہو سکتے ہیں۔

نجی اداروں کو بھی اشتہارات دے کر رسائل کی لاگت کم کرانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے، ان کا یہ اقدام مستقبل کے نونہالوں کو سستی تفریح مہیا کر سکتا ہے۔
اسی طرح سے اگر ناشران کتب اوررسائل سستے شائع کریں تو بھی ان تک رسائی بہت سے بچوں کی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو خاص طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک بھر میں سستی کتب ورسائل کی اشاعت ممکن ہو سکے۔

جس طرح سے بھارت میں بچوں کے رسائل اورکتب پر خصوصی رعائیت دی جاتی ہے ہمارے ہاں بھی ایسا ہونا چاہیے۔ہمارے ہاں رسائل وکتب کو اگر بذریعہ محکمہ پوسٹ آفس ارسال کیا جائے تو بھی بہت سے اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں جو کہ کتب بینی و رسائل کے شوقین افراد کے لئے اضافی بوجھ ہے۔ اس لئے رجسٹرڈ ڈاک کے ذریعے سے بھیجنے کے خرچ کو آج کے نرخ کے مطابق ایک چوتھائی کردینا چاہیے تاکہ بھرپور طور پر لوگ پڑھنے کے لئے کتب ورسائل خریدنے کی جانب مائل ہوں۔

ادب اطفال کے رسائل کو خاص طور پر اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ کم خرچے پر رسائل دوردراز تک بھیجے جا سکتے ہیں ۔حکومت کو ڈاک خرچ کم کرنے کے لئے احکامات جاری کرنے چاہیں۔
بچوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنے کے لئے ہر اسکول میں ایک مخصوص دن میں لائبریری میں کم سے کم تین گھنٹے گذارنے اورکچھ پڑھنے کا سلسلہ ہونا چاہیے، اس دوران اگر کوئی ادب اطفال لکھاری اُن کوادب اطفال کی کتب و رسائل سے متعارف کروانے کے ساتھ مطالعے کی اہمیت کے حوالے سے معلومات دے تو یہ بھی ایک عمدہ عمل ہوگا جس سے بچوں کو غیر نصابی کتب پڑھنے کی طرف لایا جا سکتا ہے۔

اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ چند بچوں کو لکھنے کا بھی شوق پیدا ہو سکتا ہے۔اس حوالے سے اسکول کے پرنسپل حضرات اوراُردو کے استاد اگر مل کر یہ سلسلہ باقاعدگی سے جاری رکھیں تو یہ فروغ اُردو کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اگر تمام اسکول مالکان تمام رسائل کی ایک ایک کاپی ہی لگوا لیں تو یہ بھی ادب اطفال کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے کہ بڑی تعداد میں اُن رسائل سے بچے مستفید ہو سکیں گے۔


راقم السطور کی ایک نوجوان محمد اُسامہ سے دوران سفر ملاقات ہوئی، موصوف کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد میںSoftware Engineeringپڑھ رہے ہیں، ان کے ہاتھ میں انگریزی ناول کو دیکھ کر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو ایک دل چسپ بات انہوں نے ادب اطفال کے حوالے سے کہی کہ ” آج اگر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بچوں تک ادب کی فراہمی کو ممکن بنا دیا جائے تو کتب بینی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔

اگر رسائل ایپ اورویب سائٹس پر شائع ہوں تو اُن کی اشاعت میں جو لاگت کے مسائل ہیں اورآمدن کم ہے وہ بھرپور طور پر حل کی جا سکتی ہے کہ آن لائن ہونے کی وجہ سے اشتہارات اورقارئین کے آن لائن پڑھنے سے بھی کافی پیسہ حاصل کیا جا سکتا ہے،چوں کہ آج ہر دوسرے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون ہے تو اس سے آمدن کے ساتھ مطالعے کا فروغ تیزی سے بڑھ سکتا ہے کہ جس کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اگر وہ عمدہ ادب پڑھے گا تو دیگرخرافات سے دور رہے گا اوربہترین انسان بن سکے گا“۔


اس نوجوان کی بات بے حد متاثرکن ہے کہ ہمیں آج بچوں کو اگر پڑھنے کی طرف مائل کرنا ہے تو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ادب تک رسائی آسان بھی کرنی ہوگی۔ جب تک یہ نہیں ہوگا تب تک آج کے بچوں کو مطالعے کی جانب بھرپور طور پر راغب نہیں کیا جا سکتا ہے، ادب اطفال کے فروغ کے لئے تبدیلیاں ناگریز ہو چکی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :