مال مفت دل بے رحم

جمعرات 22 اپریل 2021

Zulfiqar Ali Bukhari

ذوالفقار علی بخاری

ہمارے ہاں مفت میں جو بھی مل رہا ہو،اُس کو مال غینمت کے طور پر یوں لیا جاتا ہے جیسے ہم نے حاصل نہ کیا تو پھر تاحیات محرومی ہمیں پچھتاوا کرنے پر اُکسائے گی۔مفت میں تو کہا جاتا ہے کہ ” شراب“ بھی پی لی جاتی ہے کہ ” جیب “ خالی ہو تو کہاں سے عیاشی ممکن ہو سکتی ہے۔
دیکھیں جی!جب ہم نے لکھنا شروع کیا تو بے حد خوشی ہو رہی تھی کہ ہم معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کو اُجاگر کرکے اصلاحی اقدامات کی جانب اپنا ایک قدم بڑھائیں گے، پھر قدم سے قدم ملے تو انقلاب آئے گا۔


انقلاب تو خیر تب آئے گا جب لکھے ہوئے کو کوئی پڑھے گا۔یہاں تو حال یہ ہو چکا ہے کہ لکھا بھی وہ جاتا ہے جو اپنی مرضی کا ہو، یا پھر وہ لکھا جاتا ہے جو کسی کی مرضی منشا کا ہو۔ایسی باتوں کو جن سے ضمیر کے جاگنے کا خدشہ ہو یا تو دبا لیا جاتا ہے یا پھر نظر انداز کر دیا جاتا ہے تاکہ ایسی باتوں کو کہنے والے ”سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے“ کے مصداق اپنی موت آپ مرنے کے لئے تنہا کر دیتے ہیں تاکہ ایسی باتوں کو فروغ نہ مل پائے ۔

(جاری ہے)


ہمارے لکھے کو جہاں پذیرائی ملے گی تو پھر ہمیں بھی سراہا جائے گا۔مگر سراہنے کی بات تک تو یہ سچ ہے کہ تعریف تو کر دی جاتی ہے مگر لکھاری کو شائع ہونے پر کچھ دیا نہیں جاتا ہے، اب وہ معاوضے کی بات ہو یا پھر اعزازی اخبار یا رسالہ ہو،یہی وہ وجہ ہے جس نے ان سطور کے لکھنے کی جانب مائل کیا ہے۔چند اداروں کے سواء باقی سب آج بھی لکھاریوں کا استحصال کررہے ہیں ۔


بہت سے لکھنے والے اگرچہ خوش حال ہوتے ہیں ، اُن کی تحریروں کا معاوضہ نہ بھی ملے تو وہ پھر بھی خوشحالی سے اپنی زندگی بسر کر لیتے ہیں مگر دوسری طرف ایسے لکھنے والے جو کہ روزی روٹی ہی اسی سے حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔اُن کے لئے زندگی بسر کرنا محال ہوجاتا ہے کہ اگر اُن کو ایک معقول معاوضہ نہیں دیا جائے گا تو وہ کھائیں گے کہاں سے؟اگر ایک لکھار ی تمام رسائل میں لکھنا چاہتا ہے تو اُسے تمام رسائل کی یا تو سالانہ ممبرشپ لینی ہوگی یا پھر بازار سے رسائل خریدنے ہونگے اوریہ خرچا گھر کے ماہانہ اخراجات میں ایک بوجھ بھی بن سکتا ہے ،خاص طور پر اگر کوئی پہلے ہی کم آمدن میں گذارہ کر رہا ہے۔

جب ایک شخص اپنی خدمت کے عوض نونہالوں کے مستقبل کو بدلنے کی خاطر کچھ کام کر رہا ہے تو کم سے کم اعزازیہ یا شمارہ تو باعزت طور پر ملنا اُس کا حق بنتا ہے۔
 اگر لکھنے کے بعد اپنی تحریروں کے شائع کردہ رسائل وجرائد کے پیچھے ہی ایک لکھاری کو بھاگنا پڑے گا تو وہ کیا خاک مزید اچھا لکھ پائے گا۔اگرچہ یہ لازم نہیں وہ اپنی تحریروں کی اشاعت کے ریکارڈ کو مرتب رکھے مگر کم سے کم اتنا جاننا تو ضروری ہے کہ کس اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔

کس طرح کی رائے اُس پر قاری کی طرف سے آئی ہے تاکہ وہ اپنے اندر نکھار تو لا سکے۔کم سے کم یہ تو لازمی ہونا چاہیے کہ لکھنے والوں کو بروقت آگاہ کر دیا جائے کہ بھئی آپ کب تک شائع ہونگے ؟تب بھی لکھاری بھرپور توجہ سے اچھا لکھتا رہے گا۔یہاں تومعلومات حاصل کرنے کے لئے بھی ”پاپڑ بیلنے “ پڑتے ہیں۔
اب ایسے لکھاری تو کم ہی ہیں جو کہ ہر شے کو بالا طاق رکھتے ہوئے لکھتے جاتے ہیں، اب خدا جانے کہ وہ اپنی اصلاح کے خواہاں ہیں بھی یا نہیں ، یا اتنا کما رہے ہیں کہ اُن کو کسی بھی طرح کے صلے یا تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔


کچھ لکھاری حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ قلم سے کچھ اپنی ” جادوگریاں“ دکھاتے ہیں کہ وہ فی صفحہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔اب شائع کرنے والے اُن کو خوب پیسے دیتے ہیں کہ اُ ن کے نام کی بدولت اُن کے رسالے/اخبار کو بھی ” چار چاند “ لگ جاتے ہیں۔
چاہے اُن کی تحریروں سے اُن کے ادارے کی رفتہ رفتہ عزت مجروح ہو رہی ہو مگر اُن کو تب تک احساس نہیں ہوتا ہے جب تک قارئین اُس کوخریدنے سے با زنہیں آجاتے ، جب یہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ آج کی جدید ایجادات نے پڑھنے کے رجحان کو کم کر دیا ہے، درحقیقت یہ رسالے کی پالیسی ہے جس نے ایسی تحریروں کو فروغ دیا ہے۔

جس نے قاری کا دل اُچاٹ کر دیا ہے وگرنہ لکھنا، پڑھنا اوربولنا تو انسان کی جبلت میں شامل ہے۔
آپ خود اردگرد غور کریں تو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ ہر بچہ لکھے ہوئے کو پڑھ کر بولنا سیکھتا ہے، جب یہ بچہ بڑاہوگا تو بھی پڑھنے کی طرف مائل رہے گا۔ اگر اُس کو وہ پڑھنے کو ملے گا جس سے اُس کودل چسپی ہوگی، اگر مختلف اخبارات و رسائل اگر ہر فرد کی دل چسپی کے عین مطابق جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ شائع کریں گے تو ہی تو وہ سب کی پسند بن سکے گا۔


جب اشاعت ہی محدود ہوگی تو پھر یقینی طور پر ہر ایک کو معاوضہ دینا بھی بس سے باہر ہو جائے گا۔کچھ لکھاریوں کا لکھنا تو خوب رسالے کی فروخت بڑھاتا ہے تو اُن کے لئے ”انعام و اکرام“ بھی خوب ہوتے ہیں۔مگر جہاں یہ چاندنی خوب اپنا ”جلوہ“ دکھا رہی ہوتی ہے، وہی اُسی رسالے میں نئے لکھنے والوں کو ”مال مفت دل بے رحم“ کے مصداق یہ کہہ کر کچھ بھی دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے کہ جناب آپ کا ہم نام بنوا رہے ہیں یہ کیا کم ہے۔

آپ ابھی اس قابل تو ہوئے نہیں ہیں کہ آپ کی تحریروں پر ہم معاوضہ دیں۔یہاں واضح کر دیں کہ یہاں سب ایک جیسے نہیں ہیں چند ادارے لکھاریوں کو خوب ہر طرح سے نوازتے بھی ہیں۔
اگر رسالے/اخبار کی اعزازی کاپی کے حوالے سے درخواست کی جاتی ہے تو پھر ” نام نہاد پالیسی“ کی آڑ میں رسالے کی فروخت کو ترجیح دی جاتی ہے تاکہ ” سرکولیشن“ بڑھائی جا سکے۔

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تواعزازیہ نہ سہی اعزازی اخباریا رسالے کی فراہمی کوئی غلط بات نہیں ہے۔لیکن یہاں بھی وسائل کی بات آجاتی ہے کہ جب اشتہارات ہی نہ مل پا رہے ہوں تو کس طرح سے ان لکھاریوں کی دلی آرزو کو پورا کیا جا سکتا ہے۔اب یہ بات قدرے غیر اخلاقی ہوگی کہ آپ کو کچھ نہ دیا جائے تو آپ لکھنا ہی چھوڑدیں۔کچھ رسائل اعزازی بھی اتنے عرصے میں فراہم کرتے ہیں کہ بیچارہ لکھاری قلم چھوڑ ہڑتال کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔


یہاں یہ بات قابل غو ر ہے کہ اگر اخبارات و رسائل میں موجودہ حالات اور نئے رحجانات کے مطابق تحریروں کو جگہ دی جائے تو وہ قارئین کو زیادہ پسند آئے گی۔اب ہمیں اگر ماضی کے فرسودہ خیالات اورواقعات کو ہی گھما پھرا کر سامنے لایا جائے گا تو پھر کہاں سے ایسے اخبارات کی ” سرکولیشن “ بڑھ سکے گی۔اب یہ تو اخبارات و رسائل کے شائع کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ” اشتہارات “ کے حوالے سے بھرپور اقدامات کریں تاکہ وہ اپنی طویل زندگی پا سکیں ۔

مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے اقدامات کی طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی ہے کہ وہ خطیر رقم حاصل کر سکیں ۔جو کہ نہ صرف اُن کے لئے فائدے کا سبب بن سکے بلکہ لکھنے والوں کو بھی بہترین معاوضہ دے سکے۔جو محنت کر کے آپ کو ایسی تحریر دے رہا ہے جو کہ آپ کے رسالے کی قدروقیمت یا آپ کے قاری بڑھا رہی ہے تو آپ کو بھی کچھ عطا کرنا چاہیے یہ لکھاری کا حق ہے۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر لکھنے والوں کو ایسے ہی ” برباد“ کیا جائے گا تو پھر نئے لکھنے والے ایسے موضوعات پر لکھ پائیں گے جن کو پڑھ کر معاشرے میں اصلاح ہو سکے گی۔
”ادب برائے اصلاح “کاتصور تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب اصلاحی تحریروں کی اشاعت ممکن ہو پائے گی۔اگرچہ ایسی تحریریں ہر رسالے میں ہوتی ہیں مگر اُن کی تعداد ”آٹے میں نمک “کے برابر ہوتی ہیں۔

” ادب برائے تفریح“ کے حوالے سے لکھنے والوں کو ”بڑے نام“ ہونے کے باوجود ”عزت ووقار کے ساتھ معاوضہ بمعہ اعزاز شمارہ “تو د ے دیا جاتا ہے مگر نئے یا پھر ” چند مخصوص افراد سے تعلق“کی بناء پر اُن کے ساتھ خصوصی سلوک کیا جاتا ہے۔کچھ تو تحریریں لے کر اطلا ع تک دینا مناسب نہیں سمجھتے ہیں جو کہ ایک غیر اخلاقی طرز عمل ہے کہ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ آپ کی وقعت کیا ہے۔


اس طرح کے اقدامات کا سدباب ہونا چاہیے یہی وہ چند باتیں ہیں جو کہ لکھنے والوں کو لکھنے سے دور کر رہی ہیں تو دوسری طرف غیرمعیاری تحریروں کی اشاعت بھی قارئین کو رسائل و جرائد پڑھنے سے دور کر رہی ہیں۔راقم السطور کی تحقیق کے مطابق چونکہ نئے لکھنے والے چھپنا چاہ رہے ہوتے ہیں تو وہ ہر طرح کا سلوک برداشت کر لیتے ہیں۔کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو کہ رسائل کی اشاعت سے لے کر فروخت تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ ”حسن کاکردگی“ سے اُن کو مسلسل جگہ ملتی رہے۔


ان سطور کے لکھنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے کہ ہر جگہ پر ایک جیسا ہی سلوک نئے لکھاریوں کے ساتھ برتا جا رہا ہے، کچھ ایسے بھی ادارے ہیں جو کہ اچھے معاوضہ کے ساتھ اعزازی شمارہ اور کوئی تحفہ بھی دے کر ایک لکھاری کو وہ عزت دے رہے ہیں جو کہ اُن کا حق بنتا ہے۔اُن کے نزدیک سب لکھنے والے ایک ہی طرح کی ” عزت ووقار“کے مستحق ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ادارے آج نہ صرف قارئین بلکہ لکھاریوں کی پہلی ترجیح ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اُن کی پہچان کا سبب یہی ہے کہ وہ معیار کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرتے۔

اسی طرح سے باقی اداروں کو بھی کرنا چاہیے تاکہ لکھاری کو عزت واحترام دیا جاسکے جس کا مستحق ہے۔لکھاریوں کو اُن کا حق ملنا چاہیے ، ادب سے وابستہ ہر فرد کی خدمات کا جب تک بھرپور طورپر ادب نہیں کیا جائے گا تب ادیب قلم چھوڑتا رہے گا۔ختم شد۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :