قابلیت کا استحصال

پیر 10 مئی 2021

Zulfiqar Ali Bukhari

ذوالفقار علی بخاری

ہمارے ہاں کئی مقابلے ہوتے ہیں ان میں اکثر کھلاڑی اور عام لوگ حصہ لیتے ہیں۔ان مقابلوں کی نوعیت کے اعتبار سے اس میں شرکاء کی شرکت ممکن ہوتی ہے۔ جیسے کسی بھی کھیل میں وہی حصہ لے سکتے ہیں جو کہ اُس کھیل کے قانون وغیرہ کو جانتے ہیں ، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح سے اس کو کھیلا جانا ہے۔
آپ میں سے اکثر لوگوں نے یہ دیکھا ہوگا کہ ہمارے ہاں کسی بھی کھیل میں بے ایمانی کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔

یہ چند مخصوص کھلاڑیوں یا پھر اشخاص کو جیتوانے کے لئے ہوتی ہے تاکہ من پسند افراد کو انعام و اکرام ملے سکے۔اسی حوالے سے ہم آج دیگر شعبوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اور صرف ادب کے حوالے سے بات کریں گے کہ اس میں کیا کچھ ہوتا ہے۔
ادبی مقابلے افسانوں، کہانیوں اور شعر وشاعری کے حوالے سے ہوتے ہیں اور تمام شرکاء کو کھلے عام شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔

(جاری ہے)


 جہاں منتظمین واقعی حقدار کو ہی انعام دینا چاہتے ہیں تو پھر وہ بہترین کاوش کو ہی اس کا مستحق ٹھہراتے ہیں مگر جہاں اس کے برعکس ہو نا ہو تو پھر معیاری کاوش پر چند کمزوریوں کو اُجاگر کرکے پیچھے ہٹا دیا جاتا ہے تاکہ اپنے محبوب شخص کو نواز سکیں۔اس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی خاص فرد یا پھر ادارے کے حوالے سے مذکورہ شخص بھرپور کام کر سکے اور اُن کی شہرت میں اضافہ کر سکے۔


ان مقابلو ں میں بڑی تعدا اُن نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی ہوتی ہے جو کہ اپنے آپ کو بھرپور طور پر اُجاگر کرنے کی خاطر اپنی جانب سے بہترین شاعری، افسانے اور کہانیاں ارسال کرتے ہیں تاکہ وہ اس میدان میں کچھ اپنا کام سامنے لا کر ادب کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
ان میں سے اکثریت وہ ہوتی ہے جو کہ نئے ہوتے ہیں جو کہ چاہتے ہیں کہ اُن کو بھی ادب کے میدان میں کچھ کرنے کا موقع ملے اوروہ بھی اپنا نام بنا سکیں۔

اگرچہ چند نوجوانوں کی کوشش اس قابل ضرور ہوتی ہے کہ تھوڑی رہنمائی کر دی جائے تو بہترین ہو سکتے ہیں مگر اس حوالے سے کم ہی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔اُن کو مختلف تبصرہ نگاروں کی وساطت سے یوں نشانے پر رکھا جاتا ہے کہ وہ دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔
ان تبصرہ نگارحضرات کی اکثریت کی اپنی وقعت اتنی زیادہ نہیں ہوتی ہے کہ وہ عالمی سطح یا قومی سطح پر خود کو بہترین ثابت کر سکیں مگر انعام واکرام کے چکر میں یہ نوجوانوں کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔

اکثر یہ سب ان حضرات کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ برسوں سے ادبی دنیا سے وابستہ ہیں ، بجائے حوصلہ افزائی کے یہ اُس نقطے پر بات کرتے ہیں جہاں س کسی کو نیچے یا کمزور کیا جا سکے۔ان کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ اگر نوجوان کسی معروف ہستی کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہے ہیں تو وہ اپنی انا کی تسکین کی خاطر بھی بلاواسطہ ان کے خلاف محاذ بناتے ہیں تاکہ وہ حوصلہ ہار جائیں۔

اگر اُن پر اس حوالے سے جانبداری کی بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ تو نوجوانوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی غرض سے بات کرتے ہیں۔
اکثر تو یہ بھی سننے میں آیاہے کہ ادبی مقابلے جیتنے والوں کو انعام ارسال کرنے کادعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر یہ کبھی اُن تک نہیں پہنچ پاتا ہے اور بعض اوقات وہ دیا بھی نہیں جاتا ہے۔یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس طرح کے لوگ اگرچہ ادبی دنیا میں کم ہی پائے جاتے ہیں مگران کی بدولت ایک بڑی تعداد لکھنے سے دور ہو جاتی ہے۔

نئے شعرا ء اورلکھاریوں کی تخلیقات میں اتنے نقص نکال دیئے جانتے ہیں کہ وہ دل برداشتہ ہو کر ادبی دنیا سے ہی رخصت ہو جاتے ہیں اوریوں ادب ایک بہترین شاعر یا لکھاری سے محروم بھی ہو جاتا ہے۔
ہم یہاں صرف اس حوالے سے بات کریں گے کہ نوجوانوں کی راہ میں رکاوٹیں کیوں کھڑی کی جاتی ہیں ۔اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ کئی نامور لکھاری اورشعراء حضرات اپنی شہرت کو ماند پڑتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ہیں، اسی وجہ سے اُن کی بہترین تخلیق کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ مزید آگے بڑھنے کی کوشش ترک کر یں۔

اسی طرح سے سوشل میڈیا پر بھی ایسے افراد کے ذریعے اُن پر تبصرہ نگاری کروائی جاتی ہے کہ وہ ” قلم چھوڑ“ کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر یہی رونا رویا جاتا ہے کہ ادبی دنیا میں نئی” پود“ سامنے نہیں آرہی ہے۔
اس لئے بھی یہ ہوتا ہے کہ ان کے من پسند شاگرد سامنے رہیں تاکہ ان کے حوالے سے ادبی دنیا میں یہ رعب قائم رہے کہ وہ خوب ادب کی ترقی و ترویج کے لئے کا م کر رہے ہیں۔

یہ راقم السطور کے مشاہدے میں 2008سے آرہا ہے کہ کئی لکھنے والے اورشعراء رہنمائی اورحوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ سے ادبی دنیا سے اپنا تعلق توڑ چکے ہیں ۔دوسری طر ف ہمیں یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ نوجوان لکھاری سامنے نہیں آرہے ہیں۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ اُن کی راہ میں کانٹے بچا دیں گے تو ان کے لئے چلنا مشکل ہوگا ، وہی اپنی منزل تک پہنچ سکیں گے جو ” حوصلہ“ اور”جرات“ کے ساتھ اپنے خواب کی تکمیل کی طرف چلتے رہیں گے۔


یہاں نوجوان لکھاریوں کے لئے یہی عرض کرنا ہے کہ اپنے لئے درست فورم کو تلاش کرکے خود کو منوائیں ۔آپ جب تک ہر ” ایرے،غیرے“ کے ہاتھوں میں کھیلیں گے تو پھر یوں ہی آپ کا استحصال ہوتا رہے گا۔آ پ کے لئے جنگ لڑنے والوں کو آپ کی وجہ سے مسائل کا سامنا کر پڑسکتا ہے۔لہذا آپ اپنی جنگ خود بھی لڑیں ۔اگر ممکن ہو سکے تو آپ کی خاطر جو لڑ رہا ہے اُس کے بھی ہاتھوں کو مضبوط کریں کہ وہ آپ کو حقوق دلوانے کی جنگ لڑ رہا ہے تاکہ آپ کا مزید استحصال کرنا نا ممکن ہو سکے۔


اس حوالے سے یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ چند اخبارات بھی مخصوص گروہوں سے وابستہ افراد کی غیرمعیاری تحریریں شائع کرکے نوجوانوں کو اگرچہ حوصلہ افزائی دے رہے ہوتے ہیں مگر یہاں یہ بات سوچنے اور سمجھنے کی ہے کہ اس وجہ سے بہت سے قابل لکھاریوں کو اخبارات میں جگہ نہیں مل پاتی ہے اور پھر وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں ان کی نہیں چل سکے گی اور کم حوصلہ لکھاری منزل سے پہلے ہی تھک کر انجانی راہوں میں گم ہو جاتے ہیں۔

اس حوالے سے ضروری کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ چند مخصوص چہروں کی بجائے حقدار نوجوانوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
اس حوالے سے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ادبی دنیا میں نوجوانوں کو بھرپور طور پر پذیرائی بھی دی جا رہی ہے جس میں چند افراد اور اداروں کا بھرپور کردار شامل ہے۔جس کی وجہ سے ادب کی ترقی و ترویج ممکن ہو پا رہی ہے، لیکن چونکہ چند معاملات پر بات کرنا ضروری ہے تاکہ بہتر ین ادبی ماحول پیدا کیا جا سکے، اس لئے راقم السطور نے اس پر بات کرنا ضروری سمجھا ہے تاکہ نوجوانوں کے لئے سازگار ماحول ہو سکے ا ور وہ بھرپور طور پر اپنی صلاحیتوں کو نہ صرف منوا سکیں بلکہ اُس کا صلہ بھی حاصل کر سکیں۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جب تک مسائل کی وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی جائے تب تک وہ حل نہیں ہو پاتے ہیں۔
آج کے نوجوان لکھاری کل کے نامور ادیب ہونگے تب ہی ہمیں ان کے مسائل کی جانب توجہ دینی پڑے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :