چیف جسٹس کی معطلی عدلیہ اورجمہوریت پر حملہ ہے، رواں سال کے آخر میں پاکستان آؤں گی۔ بینظیر بھٹو۔۔پاکستان میں بحران کا حل معطل چیف جسٹس کی فوری بحالی، آزاد و شفاف انتخابات اور قومی اتفاق رائے کی حکومت کا قیام ہے، افتخار محمد چوہدری کو اس لئے ہٹایا گیا کیونکہ حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ سال کے آخر پر آئینی امور پر اہم فیصلے لے سکتے ہیں۔جنرل مشرف کا سیاسی سٹرکچر غیر موثر ہے، نواز شریف کے مجلس عمل کے ساتھ کام پر تحفظات ہیں، پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی صورت میں خطہ مستحکم ہو سکتا ہے، پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن و سابق وزیراعظم کا بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو

پیر 19 مارچ 2007 11:58

لندن (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین19 مارچ 2007 ) پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کی معطلی دراصل عدلیہ اورجمہوریت پر حملہ ہے اور پیپلزپارٹی عدلیہ کے تحفظ اور وکلاء کی تحریک میں اہم کردارادا کر رہی ہے، فوری وطن واپسی ممکن نہیں رواں سال کے آخر میں پاکستان آؤں گ ی،پاکستان میں جاری بحران کاحل چیف جسٹس کیفوری بحالی، شفاف و آزادانہ انتخابات کا انعقاد اور قومی اتفاق رائے کی حکومت کا قیام ہے اوراگر یہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ملک میں بحران پر قابو نہیں پایا جا سکے گا، طالبان کا خاتمہ اورافغانستان کے مسئلے کا حل پاکستان میں جمہوریت کی بحالی سے ممکن ہے اوراگرملک میں جمہوریت قائم کردی جائے تو یہ مسائل راڈار پر نظر نہیں آئیں گے، جنرل مشرف کی حکومت کا سیاسی سٹرکچر غیر موثر ہے، نوازشریف کے ساتھ ملک میں آزادانہ اورشفاف انتخابات کرانے اورسیاسی و سماجی اصلاحاتکے حوالے سے اتفاق ہے تاہم ان کے مجلس عمل کے ساتھ مل کرکام کرنے پر تحفظات ہیں، ملک میں بحران کی بنیادی وجہ جمہوریت کا نہ ہونا ہے اور جب آمریت ہوگی تو جمہوری اداروں اورمیڈیا پر حملے ہوں گے، حکومت حقائق کوتسلیم کرے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اس لئے معطل کیا گیا کیونکہ حکومت کو خدشہ تھا کہ وہ رواں سال کے آخرمیں جنرل مشرف کی وردی اورسابق وزرائے اعظم کی واپسی سمیت مختلف آئینی امور پر اہم فیصلے لے سکتے ہیں، ملک میں ا یمرجنسی نہیں لگائی جا سکتی اگر ایسا کچھ ہوا تو معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا۔

(جاری ہے)

پیر کو ایک بھارتی ٹی وی چینل کواپنے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم و پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو معطل کرنا عدلیہ پر حملہ ہے اور پیپلزپار ٹی عدلیہ کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ ایک سوال پر کہ اس وقت پارٹی کارکنان اور دیگر لوگوں کی جانب سے آپ سے وطن واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاکہ آپ واپس آ کر ملک کو بحران سے بچا سکیں تو اس کے جواب میں بینظیر بھٹو نے کہا کہ ملک میں اس وقت سب سے بڑا بحران عدلیہ کا ہے اور وہی زیادہ اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی عدلیہ کے تحفظ کیلئے اپنا کردارادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی معطلی دراصل عدلیہ اورملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں پر حملہ ہے۔ بینظیر بھٹو نے کہا کہ چیف جسٹس کو اس وجہ سے معطل کیا کیونکہ موجودہ حکومت کو اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ رواں سال کے آخر میں آئینی امور پر اہم فیصلے لے سکتے ہیں جس میں جنرل مشرف کی وردی، دوبارہ صدر منتخب ہونے، سابق وزرائے اعظم کی وطن واپسی جیسے معاملات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی میری ہدایت پر وکلاء کی تحریک کی حمایت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے اوراس دوران اپنی پارٹی سے ای میل اورٹیلیفون کے ذریعے قریبی رابطے میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جدید دور میں رہ رہے ہیں اور یہ دورانفارمیشن ٹیکنالوجی کا ہے جس کے تحت میں یہاں میں امریکہ میں رہ کر عدلیہ کی آزادی کیلئے جنگ میں شریک ہوں اور شریک رہوں گی۔

ایک سوال پر سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے عمل کا حصہ ہونے کا ناطے میں نے ہر صورت وطن واپسی کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں فوری واپسی ممکن نہیں تاہم امید ہے کہ میں رواں سال کے آخر میں وطن واپس آ جاؤں گی اور عوام 2007ء کے اختتام پر مجھے اپنے ساتھ پائیں گے۔ امریکہ سے پاکستان میں جمہوریت کی حمایت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بینظیربھٹو نے کہا کہ یہ بہت حیران کن بات ہے کہ امریکہ افغانستان میں جمہوریت کی حمایت کرتا ہے لیکن پاکستان میں حمایت نہیں کی جاتی۔

انہوں نے کہا کہ اس بارے میں وہ یقین رکھتی ہیں کہ پاکستان کے لوگوں کیلئے جمہویت انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے مسئلہ افغانستان کا حل تجویزکرتے ہوئے کہا کہ جب بھی پاکستان میں جمہوریت بحال ہوگی تو طالبان کے خاتمے اورافغانستان کے مسئلے سمیت تمام مسائل راڈار سے غائب ہو جائیں گے اس لئے ان تمام مسائل کا حل پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور استحکام ہے جبکہ ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنرل پرویزمشرف کا سیاسی سٹرکچرغیر موثر ہے اوران کی حکومت خودکش حملے روکنے اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے میں مکمل ناکام ہو گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت افراتفری ہے اور ہمیں ایئرپورٹس اور ہوٹلوں کے باہر خودکش حملوں کا سامنا ہے جبکہ اس دوران خودکش حملے میں کوئٹہ میں ایک جج کوبھی قتل کر دیا گیا۔ بینظیر بھٹو نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کا سیاسی سٹرکچر غیر موثرہے اور وہ خودکش حملوں کوروکنے اور دہشت گرد گروپوں کے خاتمے میں مکمل ناکام ہو گی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا کہ میں اورمیاں نوازشریف ملک میں آزادانہ اورشفاف انتخابات کرانے کے معاملے پر متحد ہیں اور یہ تمام سیاسی جماعتیں جانتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاسی اور سماجی اصلاحات پر بھی تعاون کیا ہے اور یہ بات ”میثاق جمہوریت“ میں بھی واضح ہے جبکہ نواز شریف اور میری جماعت اتحاد برائے بحالی جمہوریت کے پلیٹ فارم سے مل کرجدوجہد جاری رکھیں گے اور جہاں تک نوازشریف کے مجلس عمل کے ساتھ مل کر کام کرنے کا تعلق ہے اس پر ہمارے تحفظات ہیں چنانچہ ہم نوازشریف کی جماعت کے ساتھ اے آر ڈی کے پلیٹ فارم سے کام کریں گے لیکن اے آرڈی کو اے پی سی کا متبادل نہیں بنائیں گے کیونکہ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان میں دستیاب معتدل آپشن کیلئے یہ بات انتہائی اہم ہے۔

بینظیر بھٹو نے اپنے انٹرویو کے دوران مزید کہا کہ ملک میں موجودہ بحران نے تحریک کی صورت اختیار کر لی ہے اورچیف جسٹس کی معطلی سے کئی لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء اس معاملے پر احتجاج کر رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کر رہی ہیں اور عام آدمی نے بھی اس احتجاج میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن نے کہا کہ میڈیا پر حملہ اوراس کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے معاملے پر ہمیں گہری تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں اداروں کو تباہ اور ان کا تقدس پامال کیا جا رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک موثر اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تب تک حالات کو کنٹرول نہیں کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ بحران کا حل چیف جسٹس آف پاکستان کی فوری بحالی،آزادانہ اورشفاف انتخابات اوراعتدال پسند جماعتوں کی قومی اتفاق رائے کی حکومت کا قیام ہے اوراگر یہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تو جنرل پرویزمشرف اور ان کی حکومت مشکلات میں گھری رہے گی جبکہ صدر جنرل پرویزمشرف کی طرف سے موجودہ حکومت کیخلاف سازش کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بینظیر بھٹو نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ صدر جنرل پرویزمشرف کس کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات چیف جسٹس کی معطلی کے حوالے سے پیدا ہوئے ہیں اور میرے سمیت کسی اپوزیشن جماعت نے تو چیف جسٹس کو معطل نہیں کیا۔ بینظیر بھٹو نے کہا کہ موجودہ حکومت کو مسئلے کی وجوہات کا پتہ لگانا چاہیے اوراس کی بنیادی وجہ ملک میں جمہوریت کا نہ ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ملک میں جمہوریت نہیں ہوگی تب یقینی طور پر دوسرے اداروں پر حملے ہوں گے اور جب کسی ملک میں آمریت ہوگی تب وہ ڈکٹیٹر شپ غیر جمہوری اقدامات اٹھائے گی اوراس دوران عدلیہ اورمیڈیا کو دبانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو سوچنا چاہیے اورحقائق کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ملک میں انتشار کی بڑی وجہ چیف جسٹس کی معطلی ہے اور اس وقت تک یہ بحران ختم نہیں ہوگا جب تک کہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات نہیں اٹھائے جاتے جبکہ ایک اور سوال کے جواب میں بینظیر بھٹو نے کہا کہ رواں سال کے آخر تک آئندہ عام انتخابات کی ٹائم لائن مقرر کر دی گئی ہے اور بعض لوگ سوچتے ہیں کہ صدر جنرل پرویزمشرف ملک کی موجودہ صورتحال اورحالات کو ایمرجنسی کیلئے استعمال کریں گے لیکن اگر وہ ملک میں ایمرجنسی لگانے کا اعلان کریں گے تو معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا اوراس دوران بارایسوسی ایشن خود بھی لڑائی لڑ رہی ہے اور جج صاحبان بھی خوف محسوس کر رہے ہیں اور یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ جنرل پرویزمشرف عدلیہ کو ربڑ سٹمپ کے طور پر استعمال کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن ملک میں اس وقت ہنگامی حالت نافذ کرنا ممکن نہیں۔ ایک اور سوال پر بینظیر بھٹو نے کہا کہ بھارت میں بعض لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جنرل مشرف دہشت گردی کیخلاف بہت اچھے اقدامات اٹھا رہے ہیں لیکن مجھے خوف ہے کہ پاکستانی عوام کانقطہ نظر اس سے قدرے مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں طالبان دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور شدت پسندوں کے کیمپ ہوں تو اس وقت ہم اپنے معاشرے کیلئے خوفزدہ ہوتے ہیں اوران کے نتائج نہ صرف افغانستان اور بھارت کو بھگتنا پڑیں گے بلکہ پاکستان کے عوام کو بھی بھگتنا پڑیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم خود دہشت گردی اور شدت پسندی کا شکار ہیں اور پاکستان کے عوام خودکش حملوں سے محفوظ رہنے کیلئے دہشت گرد گروپوں کے کیمپوں اور طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ صدرجنرل پرویزمشرف ایک بہتر شخصیت ہیں وہ اپنے موقف پر نظرثانی کریں کیونکہ جنوبی ایشیاء میں صرف اس وقت استحکام آ سکتاہے جب بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں جمہوریت ہوگی جبکہ ایک سوال کہ سرحد پار دراندازی کا سلسلہ آپ کے اور نواز شریف کے دور حکومت میں شروع ہوا تو اس کے جواب میں بینظیر بھٹو نے کہا کہ وہ اس مفروضے سے ا تفاق نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کشمیر کی تحریک میں اتنی شدت نہیں تھی۔