کلبھوشن یادیو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکنے سے اب کوئی نہیں بچا سکتا

کلبھوشن یادیو کیس: پاکستان جواب الجواب 17 جولائی تک جمع کرا دے گا، بھارت نے پاکستان کی جوابی یادداشت پر پہلے ہی اپنا جواب عالمی عدالت انصاف میں جمع کرادیا

جمعرات 19 اپریل 2018 22:16

کلبھوشن یادیو کو پھانسی کے پھندے پر لٹکنے سے اب کوئی نہیں بچا سکتا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 اپریل2018ء) بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس میں پاکستان کی جانب سے جواب الجواب 17 جولائی یا اس سے پہلے جمع کرائے جانے کا امکان ہے کیونکہ بھارت نے پاکستان کی جوابی یادداشت پر پہلے ہی اپنا جواب عالمی عدالت انصاف ( آئی سی جے ) میں جمع کرادیا ہے۔اس کیس کو دیکھنے والے اٹارنی جنرل پاکستان کے دفتر کو یہ امید ہے کہ دی ہیگ میں پاکستانی سفارتخانے میں بھارتی جواب موصول ہونے کے بعد ایک یا دو روز میں انہیں جواب کی نقل مل جائے گی۔

خیال رہے کہ 13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یادداشت جمع کرائی گئی تھی۔واضح رہے کہ 18 مئی کو عالمی عدالت انصاف کی جانب سے عبوری حکم میں کلبھوشن یادیو کی سزائ کو معطل کردیا گیا تھا، جس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے آئی سی جے سے بات چیت کی گئی تھی کہ پاکستانی حکومت نے عالمی عدالت کے حکم پرعمل کرنے کیلیے مختلف محکموں کو ہدایت کردی۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انھیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاڑ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

بعدازاں اپریل 2017 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جاسوسی اور کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پرسزائے موت سنانے کا اعلان کیا تھا، جس کی توثیق رواں برس 10 اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کردی تھی۔اس کے بعد بھارت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں تحریری طور پر جمع کرائی گئی درخواست میں پاکستان پر کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دینے پر ویانہ کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

اس کے جواب پر پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ قونصلر تعلقات 1963 کے ویانہ کنونشن صرف قانونی طور پر آئے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے اور یہ خفیہ آپریشن کے لوگوں پر لاگو نہیں ہوتا۔پاکستان کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو حاضر سروس افسر تھا اور وہ پاکستان میں جاسوسی کرنے اور ایک خصوصی مشن پر بھیجا گیا تھا۔

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ بھارت کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ نیوی کا ایک افسر کیوں ’را‘ کے لیے کام کر رہا اور وہ ایک مسلمان نام سے پاکستان کا سفر کیوں کر رہا تھا۔پاکستان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ ایک ایسا ملک جس کا دامن صاف ہو وہی عالمی عدالت انصاف سے درخواست کرسکتا ہے کہ وہ اس معاملے پر دو ممالک کے درمیان مداخلت کرے لیکن بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور وہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل نہیں کر رہا اور پر امن کشمیریوں پر پیلٹ گن کا استعمال کررہا۔

آئی سی جے میں پاکستان کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو ایک جعلی شناخت کے ذریعے پاکستان میں بھیجا گیا اور اور وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا تھا۔