بجٹ گورکھ دھندہ کے سوا کچھ نہیں،موجودہ حکومت نے چھٹا بجٹ پیش کر کے نئی حکومت کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے، ایمنسٹی سکیم سے عوام کو نہیں،چوروں کو فائدہ ہوگا،معیشت کی بہتری کیلئے سود کا خاتمہ ضروری ہے،پیٹرولیم لیوی بڑھانے سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہو گا،فاٹا میں بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انڈسٹری کا قیام ضروری ہے، اراکین کا سینیٹ میں اظہار خیال

جمعہ 4 مئی 2018 16:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 مئی2018ء) اراکین سینیٹ نے کہاہے کہ بجٹ گورکھ دھندہ کے سوا کچھ نہیں،این ایف سی کے بغیر غیر آئینی ہے،موجودہ حکومت نے چھٹا بجٹ پیش کر کے نئی حکومت کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے، ایمنسٹی سکیم سے عوام کو نہیں،چوروں کوفائدہ ہوگا،معیشت کی بہتری کیلئے سود کا خاتمہ ضروری ہے،پیٹرولیم لیوی بڑھانے سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہو گا،فاٹا میں بیروزگاری کے خاتمے کیلئے انڈسٹری کا قیام ضروری ہے۔

جمعہ کو سینیٹ اجلاس میںبجٹ 2018-19ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ بجٹ گورکھ دھندہ کے سوا کچھ نہیں،بجٹ میں ملک کی تقدیر بدلنے کی بات کی گئی ہے، حکومت نے ہر سال بجٹ میں بڑے بڑے دعوے کیے لیکن سال کے آخر میں جنہوں نے بجٹ بنایا تھا وہ خود ناکامی کا اعتراف کرتے رہے،وفاقی حکومت کے نزدیک صوبوں کی کوئی اہمیت نہیں،این ایف سی کے بغیر بجٹ لایا گیا، پیپلزپارٹی کو علاقائیت کو فروغ دینے کا الزام لگانے والے خود پنجاب تک محدود ہیں،حکمرانوں کے ذہین میں بات بیٹھ گئی ہے کہ دھونس دھاندلی سے ایک صوبے میں انتخابات جیتے اور تین صوبوں پر اس اکثریت کی بنیاد پر حکمرانی کریں،ترقیاقی بجٹ میں کمی جبکہ ایوان صدر کے اخراجات میں اضافہ کیا گیا ہے، ایک نادان دوست آٹھارہویں ترمیم کی رول بیک کی بات کرتے ہیں، کنکرنٹ لسٹ کے بحالی کی بات کرتے ہیں،یہ دوبارہ غلامی چاہتے ہیں،ایک صوبے کے ذریعے تین صوبوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش خطرناک ہو گی،میں نے خود غلام احمد بلور کو کابینہ کے اجلاس میں کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد خوشی سے روتے ہوئے دیکھا، غلام بلور نے پختونوں کو شناخت دینے اور کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرنے پر آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کا شکریہ ادا کیا ،ن لیگ کی جب بھی حکومت آئی ہے انہوں نے علاقائیت کو فروغ دیاہے،کیا پاکستان میں ایک سال بھی ایسا آئے گا کہ جب سننے کو ملے کہ اس سال ملک کو سکیورٹی خطرات درپیش نہیں انہوں نے کہا کہ آپ نے بھٹو کو عدلیہ کے نام پرقتل کیا،شہادت کے بعد تذلیل کی گئی ،اب آپ کو بھٹو یاد رہاہے، اب آپ ان کے مشن کی تکمیل کی قسم کھا رہے ہیں،آپ تو پولیس سے سلامتی لیکر کر عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں، آپ کی صاحبزادی کی پیشی پر تو وزارء ساتھ ہوتے ہیں جبکہ بینظیر بھٹو کی پیشی کے وقت دونوں ہاتھوں میں بچے ساتھ ہوتے تھے۔

(جاری ہے)

سینیٹر محمد ایوب نے کہا کہ اس بجٹ میں عام آدمی کیلئے کچھ نہیں، حکومت نے قرضے تو لے لی مگر واپس کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں بتایا، اگلی حکومت کیسے قرضے اتارے گی،وزراء قرضہ لینے کیلئے بیرون ملک ایسے شایان شایان طریقہ سے جاتے ہیں جیسے قرضہ لینے نہیں، دینے جا رہے ہیں،ایمنسٹی سکیم سے ملک کو نہیں چوروں کو فائدہ ہو گا،فاٹا کیلئے این ایف سی میں3 فیصد حصہ ملنا چاہیے، انضمام سے پہلے وسائل کا تعین ضروری ہے، وہاں کے ہر گھر سے جنازہ نکلا ہے،حکومت کی جانب سے انضمام کا اعلان خوش آئند مگر عوام کو دھوکہ نہ دیا جائے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کا مینڈیٹ نہیں تھا، یہ عوام دشمن، مزدور دشمن بجٹ ہے،ملکی معیشت کو سود سے پاک کیے بغیر معیشت ٹھیک نہیں ہو سکتی، گردشی قرضے اس وقت ایک ہزار ارب سے تجاوز کر گئے ہیں،صاف پانی کیلئے صرف 15 فیصد مختص کرنا نا انصافی ہے، بینکوں سے قرضہ لیکر بجٹ مرتب کی،اس وقت اندرونی و بیرونی قرضے 24کھرب تک پہنچ چکا ہے،ایک طرف کپاس اور گنے کی کاشتکاروں کو سہولیات دی رہی ہے تو دوسری طرف خیبر پختونخوا میں تمباکو کے کاشتکاروں پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرنا سراسر زیادتی ہے، اس کو فی الفور ختم کیا جائے،فاٹا انضمام سے پہلے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے۔

مسلم لیگ ن کی سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے تاریخی بجٹ پیش کی ہے، اس کی مثال نہیںملتی، اس میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کو ریلیف دی گئی ہے،خواتین کی فلاح و بہود کیلئے خصوصی اقدامات کیے ہیں،خواتین کو ہراساں کرنے سے روکنے کیلئے قانون سازی کی، انہیں پبلک سروس کمیشن میں25 فیصد کوٹہ مختص کیا۔سینیٹر شفقت جاموٹ نے کہا کہ یہ بجٹ انتخابات سے قبل دھاندلی ہے، ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے عوم کی کمر ٹوٹ جائے گی،پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو خسارے سے نکالنے کیلئے اس میں کچھ نہیں،توانائی بحران کے خاتمہ کے دعوے بھی جھوٹاہے ۔

سینیٹر نصیب اللہ بارزئی نے کہا کہ ملک میں موٹروے کے 1700 کلومیٹر منصوبوں کاآغاز ہوا مگر بلوچستان میں ایک کلو میٹر پر بھی موٹروے نہیں بنائی گئی،سوئی سدرن گیس سے 80 ارب کی ریونیو جمع ہوتی ہے مگر بلوچستان کی70 فیصد علاقے گیس سے محروم ہے،صوبے میں ایک بھی کارخانہ نہیں،بلوچستان میں ہائیر ایجوکیشن کی سیٹیں بیچی جاتی ہیں،اکثر علاقوں میں جانور اور انسان ایک جگہ سے پانی پیتے ہیں۔سینیٹر خانزادہ خان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم لیوی 20 فیصد بڑھانے سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا،فاٹا میں بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انڈسٹری کا قیام ضروری ہے۔