شریف خاندان کے خلاف ایوان فیلڈ یفرنس کی سماعت

قطری شہزادے کے بیان دینے پر آمادہ ہونے کے باجود بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا،رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں,قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا، نواز شریف کا عدالت میں بیان

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 22 مئی 2018 11:13

شریف خاندان کے خلاف ایوان فیلڈ یفرنس کی سماعت
اسلام آباد(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔22مئی 2018ء) : سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایون فیلڈ ریفرنس میں مسلسل دوسرے روز اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک نہیں رہا۔ ۔تفصیلات کے مطابق شریف خاندان کے خلاف ایوان فیلڈ یفرنس کی سماعت ہوئی۔نیب پراسیکیوٹر کے اعتراض کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف نے خود بیان پڑھنا شروع کردیانواز شریف نے احتساب عدالت میں اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی ۔

جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔جیرمی فری مین نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی ، جیرمی فری مین کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی۔

(جاری ہے)

لیکن اختر راجا اور جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں لینے کی کوشش نہیں کی، اختر راجا کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوٹو کاپی پر فرانزک معائنے کا کوئی تصور موجود نہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجا نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فرانزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں اور یہ بھی حقیقت ہے فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنے کے لیے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔نواز شریف کا قطری شہزادے کے خط سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ قطری شہزادے کے بیان دینے پر آمادہ ہونے کے باجود بیان ریکارڈ نہیں کرانے دیا گیا۔

قطری خطوط کی تصدیق خود حمد جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بھی کی۔ ۔ریکارڈ کے مطابق قطری شہزادے نے دونوں خطوں کی تصدیق کی ۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجہ نے نیب کی 3رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، اُس کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی جب کہ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا اور اختر راجا نے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔

گلف اسٹیل مل سے متعلق معاہدوں کا کبھی حصہ نہیں رہا۔۔دبئی اسٹیل ملزکی افتتاحی تقریب میں شرکت کےعلاوہ مجھے باقی معاملات کا پتا نہیں۔سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے ملزم کے بیان قلمبند کیے جانے کے طریقے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ 6 دن کی لکھی ہوئی کہانی پڑھ کر سناتے رہیں، 342 کے بیان کی منشاء یہ ہے کہ ملزم بیان قلمبند کرائے جس کے دوران قانونی نکات پر وکیل سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس موقع پر جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔ نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ میں اس بیان پر قائم ہوں، یہ بیان میں نے خود وکیل خواجہ حارث کی مشاورت سے تیار کیا ہے۔