لیگی حکومت نے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کردیا،چودھری طارق فاروق

بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کے نظام کو مکمل سپورٹ کیا جائیگا ،حکومت بلدیاتی اداروں کے ذریعہ عوامی حقوق کا تحفظ کریگی ، سینئر وزیر آزاد کشمیر حکومت

پیر 28 مئی 2018 17:17

مظفر آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مئی2018ء) آزاد کشمیر حکومت کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ء میں ترامیم کے ذریعے کشمیر کونسل کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات ختم کرتے ہوئے اسے ایڈوائزری حیثیت دینے کی سفارشات پر مشتمل عبوری آئین ایکٹ 1974ء میں 13ویں آئینی ترمیم کا مسودہ اسمبلی میں باضابطہ طور پر پیش کردیا ہے ۔

آزاد کشمیر حکومت کے انتظامی اور مالیاتی اختیارات میں اضافے اور کشمیر کونسل کی از سر نو حدود کے تعین کیلئے وزیراعظم پاکستان (وقت) میاں محمد نواز شریف نے 29دسمبر 2016کو دورہ مظفرآباد کے دوران تفصیلی نشست میں اتفاق کرتے ہوئے غیر رسمی منظوری دی تھی جسے باضابطہ بنانے کیلئے آزاد کشمیر حکومت کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدرخان کی زیر قیادت کوششیں کیں ۔

(جاری ہے)

ان کاوشوں کے نتیجہ میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کومزید مالیاتی اور انتظامی اختیارات دینے سے اصولی اتفاق کیا ہے ۔ جس کی روشنی میں وفاقی مشیر قانون بیرسٹر ظفر اللہ کی زیر نگرانی ایک آئینی مسودہ تیار کیاگیا جس میں بعد ازاں تبدیلی کی گئی اور اس کی حتمی منظوری وفاقی کابینہ نے دی ۔ وزیر قانون حاجی جاوید اختر کے ہمراہ قانون ساز اسمبلی کے لارجنگ ہال میں پرہجوہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیمی سفارشات کے تحت آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ء کو اب عبوری آئین 1974ء کہا جائیگا جو خطہ کی متنازعہ حیثیت اور آزادانہ استصواب رائے کے ذریعہ مسئلہ کے حل تک نافذ العمل رہے گا۔

ایکٹ 1974ء کی تمام سیکشنز اب آئین کے آرٹیکل اور سب آرٹیکل کہلائیں گے ۔ مجوزہ ترمیم کے تحت آزاد کشمیر کے شہریوں کو اب وہی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہونگے جو پاکستان کے آئین 1973 ء میں وہاں کے شہریوں کو حاصل ہیں ۔ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس سلسلہ میں کئی بار توجہ دلائی تھی جس کے تحت مجوزہ ترامیم میں بنیادی حقوق کو تحفظ کی سفارش کی گئی ہے ۔

مجوزہ آئینی ترمیمی سفارشات میں طے کیا گیا ہے کہ خطہ کے اندر اسلامی طرز زندگی کو رواج دیکر اسے تحفظ دیا جائیگا۔ بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کے نظام کو مکمل سپورٹ کیا جائیگا اور حکومت بلدیاتی اداروں کے ذریعہ عوامی حقوق کا تحفظ کریگی ۔ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہوگا۔ ہر قسم کے تعصبات کے خاتمہ کیلئے ریاستی سطح پر کوششیں کی جائینگی ۔

خواتین کی تمام شعبوں میں نمائندگی یقینی بنائی جائیگی ۔ خاندانی نظام کو مضبوط بنانے کیلئے اقدامات کئے جائینگے ۔ اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیا جائیگا۔ منتخب حکومت کو اسمبلی کے ذریعہ جوابدہ بنایا جائیگا۔ تمام اداروں کے حوالے سے اسمبلی قانون سازی کریگی اور ان کا کردار متعین کریگی ۔ آزادجموں وکشمیر کونسل کے مالی ، انتظامی اختیارات ختم کرکے اسے مشاورتی حیثیت دی جائیگی ۔

کشمیر کونسل کا متوازی کردار ختم کردیا جائیگا۔ کشمیر کونسل کے ایڈوائزری کردار کے حوالے سے وفاقی حکومت ، قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اتفاق کئے جانے پر ان کے شکر گزار ہیں ۔ چوہدری طارق فاروق نے مزید کہا کہ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے 6ممبران کے انتخاب کا طریقہ کا ر حسب سابق رہے گا۔ مجوزہ آئینی ترامیم کے تحت دو عملی کو ختم کرتے ہوئے قومی آمدن اب صرف ایک ہی اکائونٹ میں جائے گی جو آزاد کشمیر حکومت کے ماتحت ہوگا۔

کشمیر کونسل کے اثاثہ جات ، جائیدادیں و فنڈز آزادحکومت کی تحویل میں چلے جائینگے ملازمین کوتنخواہ اور ملازمت کا تحفظ حاصل رہے گا۔ البتہ وہ ملازمین جو ڈیپوٹیشن پر کشمیر کونسل میں آئے ہوئے ہیں وہ واپس چلے جائینگے ۔ انکم ٹیکس آزاد کشمیر حکومت وصول کریگی اور آزاد کشمیر حکومت کے خزانہ میں ہی جمع ہوگا۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت آئندہ آئین میں ترمیم کیلئے سادہ اکثریت کے بجائے دو تہائی اکثریت لازمی قرار دی جارہی ہے ۔

پیپلز پارٹی نے 1975ء میں سادہ اکثریت کی بنیاد پر 33سیکشن تبدیل کرتے ہوئے تھرڈ شیڈول میں شامل کردیئے تھے ۔ آزاد کشمیر اسمبلی کا اجلاس اب سال میں 60دن لازمی ہوگا جس کے تحت حکومت جوابدہی کے عمل سے گزرے گی اور اپوزیشن کو عوامی مسائل اجاگر کرنے اور حکومت پر چیک رکھنے کا زیادہ موقع ملے گا۔ مہاجرین جموں وکشمیر مقیم پاکستان کی 12نشستوں کو آئینی تحفظ دیا جارہا ہے اور آئین میں ان علاقوں کی بھی نشاندہی کردی گئی ہے جہاں سے 1947ء میں مہاجرین ہجرت کرکے پاکستان میں مقیم ہوئے ۔

آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبران کی تعداد 49سے بڑھا کر 53کرنے کی تجویز ہے ۔ اضافی حلقے آبادی کی بنیاد پر بنیں گے جن کا اطلاق آئندہ عام انتخابات سے ہوگا۔ 13ویں آئینی ترمیم کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل اور اسکی سفارشات کو آئینی تحفظ دیا جارہا ہے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل قوانین کے شرعی ہونے کے حوالے سے اپنی سفارشات حکومت کو ارسال کرے گی جن پر عملدرآمد کیلئے حکومت پابند ہوگی جبکہ اسلامی نظریاتی کونسل معاونت کیلئے پاکستان اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کرسکے گی ۔

دوہرے عدالتی نظام کو ختم کیا جائیگااور شریعت کورٹ کو مکمل آئینی تحفظ دیتے ہوئے شریعت اپیلنٹ بینچ قائم کیا جائیگاجہاں ایک عالم جج کی تعیناتی بھی ہوگی چیف جسٹس عدالت العالیہ شریعت اپیلنٹ بینچ کے بھی سربراہ ہونگے اور وہ عدالت العالیہ کے 9ججوں میں سے کسی کو بھی شرعیت اپیلنٹ بینچ کے اختیارات سونپ سکیں گے ۔ تمام ریاستی وسائل اب آزاد کشمیر حکومت کے کنٹرول میں ہونگے ۔

آزاد کشمیر کے اندر ریاستی وسائل آزاد کشمیر حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی اور نہیں استعمال کرسکے گاجن میں واٹر یوز چارجز ، وفاقی ٹیکسز سے حصہ ، ہائیڈرل ، منرلز ، قدرتی گیس و پٹرولیم شامل ہیں اس حوالے سے اب آزاد کشمیر اسمبلی حکومت کواختیار فراہم کریگی ۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے ذریعہ تھرڈ شیڈول میں تبدیلی کرتے ہوئے وہ 52معاملات جو کشمیر کونسل کے پاس تھے آزاد کشمیر حکومت کو تفویض ہوجائینگے جن میں انکم ٹیکس ، ٹورازم ، اے جی آفس ، سوشل ویلفیئر ، اخبارات ، پرنٹنگ پریس وغیرہ شامل ہیں ۔

شیڈول 1میں دفاع ، کرنسی ، امور خارجہ ، مواصلات ، برآمدات ، جیالوجیکل سروے ، نیوکلیئر انرجی وغیرہ حکومت پاکستان کے پاس رہیں گے ۔ پارٹ 1میں ریلوے ، گیس ، برقیات ، کسٹم ٹرمینل شامل ہیں ۔ پارٹ Bمیں 33معاملات حکومت پاکستان کے پاس رہیں گے البتہ آزاد کشمیر اسمبلی ان معاملات پر حکومت پاکستان کی اجازت سے قانون سازی کرسکے گی ۔ آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں قائمقام وزیراعظم کا عہدہ ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے البتہ قائمقام صدر موجود رہے گا۔

پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کے مختلف سوالات کے جواب میں چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کا طریقہ کار حسب سابق رہے گا جبکہ الیکشن کمیشن تین اراکین پر مشتمل ہوگا چیف الیکشن کمشنر کا تقرر قائد حزب اختلاف اور قائد ایوان کی مشاورت سے چیئرمین کشمیر کونسل کرینگے جبکہ دو ممبران کا تقرر قائد ایوان کے ذریعہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی دور میں پاکستان میں 18ویں ، 19ویں اور 20ویں ترامیم ہوئیں مگر آزاد کشمیر کے حوالے سے کچھ نہ ہوا۔

اس وقت کے وزیر امور کشمیر کی طرف سے بنائی گئی مطلوب انقلابی کمیٹی کی سفارشات پر بہت ساری چیزوں پر اتفاق کیا گیا تھا ۔ مجوزہ آئینی ترامیم میں اس کی جھلک نظر آتی ہے ۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974ء کی سیکشن 31، 33اور 56میں ترامیم کیلئے حکومت پاکستان کی منظوری ضروری ہے ۔ مجوزہ آئینی ترامیم کیلئے حکومت پاکستان کے تمام متعلقہ اداروں نے اصولی اتفاق کررکھا ہے البتہ وفاقی کابینہ نے اس سلسلہ میں منظوری دینی تھی جو آج متوقع ہے ۔

وفاقی کابینہ کا اجلاس آج ہونا ہے ہم نے ابھی مجوزہ آئینی ترامیم کا بل اسمبلی میں پیش کیا ہے ۔ جس کیلئے کوئی پابندی نہیں ہے ۔ بل پیش ہونے کے 14دن کے اندر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کا مشترکہ اجلاس بلایا جانا آئینی تقاضا ہے ۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی دور میں تیار کی گئی آئینی ترامیم پر اتفاق رائے تھا جن میں سے بہت ساری سفارشات ہم نے اپنے مجوزہ ترمیمی بل میں شامل کی ہیں اسمبلی کے اجلاس کے لئے سب کو بروقت اطلاع دی جاتی ہے ۔

بل اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد اب تمام سٹیک ہولڈرز کیساتھ مشاورت جملہ سیاسی جماعتوں کیساتھ اتفاق رائے پیدا کرینگے ۔ عددی اکثریت ہونے کے باوجود ہمیں ترامیم کے حوالے سے کوئی جلدی نہیں ۔ ہم اخلاقی برتری کی بنیادپر مجوزہ آئینی ترامیم منظورکروانے کی کوشش کرینگے اب یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ معاملات جن پر پہلے سے اتفاق رائے موجود ہے ایک بار پھر پنڈورہ بکس کی صورت میں کھولے جائیں ۔

چوہدری طارق فاروق نے ایک سوال پر کہا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے تحت کشمیر کونسل کی حیثیت اب محض مشاورت تک محدود کی جارہی ہے ۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر کوئی سازش کامیاب ہوگئی اور کسی وجہ سے حکومت پاکستان سے عبوری آئین ایکٹ 74کی سیکشن ، 31، 33اور 56میں ترامیم کی اجازت نہ ملی تو ہم ان سیکشنز سے متعلق معاملات کو چھوڑ کر دیگر معاملات میں قانون سازی کرینگے جن کیلئے آزاد کشمیر اسمبلی بااختیار ہے انہوں نے کہا کہ کچھ اے ٹی ایم مشینیں بند ہونے کا خدشہ ہے جنہیں بچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

آزاد کشمیر اسمبلی کے قانون سازی کے حوالے سے کردار کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آئین اور قانون سے بالاتر کوئی کام نہیں کرینگے جن معاملات پر اتفاق ہے اس حوالے سے سفر جاری رہے گا۔ ہماری خواہش ہے کہ کشمیری قیادت عبوری آئین ایکٹ 1974ء میں ترامیم کے تحت آزادکشمیر حکومت کے مالی و انتظامی اختیارات میں اضافے کے حوالے سے تدبر ، تحمل ، دور اندیشی اور یکجہتی کا مظاہرہ کریگی ۔

انہوں نے کہا کہ آئین میں ترامیم ایک مسلسل عمل ہے جو ارتقاعی عمل کے تحت وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ کچھ معاملات آئین کے تحت ہوتے ہیں اور کچھ آئین میں بنائے گئے رولز میں تشریح کئے جاتے ہیں ۔ بنیادی حقوق کو تحفظ دینے کیلئے عدالتوں کو یقینا اختیارات ملیں گے ۔ آزاد جموں وکشمیر کونسل کے ممبران کا کردار بھی متعین کیا گیا ہے ۔ غیر ملکی سیاحوں کے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں داخلے کے حوالے سے نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں معاملہ زیر بحث آیا ہے جس کی روشنی میں گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاحوں کے داخلے کے حوالے سے قوانین تبدیل کئے گئے ہیں آزاد کشمیر میں بھی اس حوالے سے جلد ضروری لوازمات پورے کئے جائینگے ۔

چوہدری طارق فاروق نے ایک سوال پر صحافیوں کو بتایا کہ مجوزہ آئینی ترامیم کے بعد کشمیرکونسل سیکرٹریٹ ختم ہوجائیگا ۔ مشترکہ اجلاس سے مراد آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبران ، ممبران کشمیر کونسل اور وزیر امور کشمیر ہیں ۔ چوہدری طارق فاروق نے توقع کا اظہار کیا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے انتخابی وعدوں پر عمل کرتے ہوئے حکومتی اختیارات میں اضافے کیلئے جو کوششیں کررہی ہے وہ نیک نیتی اور خلوص کی بنیاد پر ہونے کیوجہ سے کامیاب ہونگے ۔