متحدہ عرب امارات میں سعودی عرب کا 88 واں قومی دن جوش و خروش سے منایا گیا

بدھ 3 اکتوبر 2018 16:30

ابوظہبی (اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین / وام / بدھ اکتوبر ) متحدہ عرب امارت میں آج سعودی عرب کا قومی دن منا یا جارہا ہے۔اس دن کی مناسبت سے مختلف تقاریب کا انعقاد کیا جائے گا جن میں عوامی اور سرکاری سطح پر بھرپور شرکت کی جائے گی.

اس سال کی تقریبات سے اس پیش رفت کی عکاسی ہوتی ہے جس کے باعث سعودی عرب اسلامی اور عرب معاملات کے حل میں اپنا قائدانہ کردار برقرار کھنے میں کامیاب رہا ہے.

سعودی عرب نے ترقی کا نیا دور شروع کیا ہےجس میں کئی سماجی اور معاشی شعبوں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات شامل ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اس امر کو سعودی معیشت میں دو فیصد اضافے اور تجارتی توازن میں ایک سو ساٹھ فیصد اضافے کی پیشگوئیوں کے ذریعے اجاگر کرچکاہے.

سعودی حکومت وژن دوہزار تیس پر بھی عملدرآمد کررہی ہے جسکا مقصد بجلی، توانائی، شاہراہوں، پانی، مواصلات ، تعمیرات اور سیاحت کے شعبوں میں منصوبے شروع کرکے تیل پر پچاس فیصد تک انحصار کم کرنا ہے.

متحدہ عرب امارات کی طرف سے سعودی عرب کے قومی دن کو منانے اور اس میں عوامی اور سرکاری سطح پر بھرپور شرکت دونوں ملکوں کے درمیان ان قریبی تعلقات کی عکاس ہےجو دوطرفہ تعاون سے بڑھ کراسٹریٹیجک شراکت داری میں بدل گئے ہیں.

دونوں ملکوں کے تعلقات خطہ عرب اور خلیج کی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور خطرات سے نمٹنے اور خطے میں امن اور استحکام کی ضمانت ہیں اور یہ حقیقت دونوں ملکوں کی یمن کی صورتحال اور ایران کے ساتھ معاملات کے حل کیلئے مشترکہ کوششوں سے عیاں ہے.

دونوں ملکوں نے اہم عالمی اعتما د حاصل کیا ہے کیونکہ شدت پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے انکی پالیسیاں حکمت اور جدت پسندی پر مبنی ہیں، دونوں ملکوں نے ثقافتوں اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی کی ہے.

دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مرحوم شیخ زاید بن سلطان النھیان اور شاہ فیصل بن عبدالعزیز السعود نے قائم کئے تھے۔

(جاری ہے)

دونوں رہنما علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تعاون اور رابطوں کو مضبوط بنانےکےخواہاں تھے.

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے تعلقات نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران اہم اسٹریٹیجک کامیابیاں حاصل کی ہیں جسکے باعث یہ تعلقات عرب دنیا کیلئے مثال بن گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیراعظم اور دبئی کے حکمران عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم نے چھ دسمبر دو ہزار سولہ کو خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے متحدہ عرب امارات کے تاریخی دورےکے موقع پر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا.

انھوں نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ میں لکھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات سفارتی تعلقات کی سطح سے آگے چلے گئے ہیں.

متحدہ عرب امارات اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ سعودی عرب خطے میں استحکام کا باعث اور عرب ملکوں کو درپیش خطرات سے نمٹنے اور ان میں تقسیم پیدا کرنے کے منصوبوں کیخلاف محافظ ہے.

ابوظہبی کے ولی عہد اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر عزت مآب شیخ محمد بن زاید النھیان نے خادم حرمین شریفین کے اسی تاریخی دورے کے دوران کہا تھا کہ سعودی عرب خلیج اور عرب علاقوں کا ستون ہے.

سعودی عرب کی سلامتی اور استحکام متحدہ عرب امارات اور خلیج تعاون کونسل کے دیگر ملکوں کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بناتی ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ عرب خطے میں بیرونی مداخلت روکنے کیلئے شاہ سلمان کی کوششوں کو عرب تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی.

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے تعلقات میں پیش رفت ہوئی ہے جسکی مثال دونوں ملکوں کی قیادت کی طرف سے وزراء خارجہ کی سربراہی میں مئی دوہزار چودہ میں "مشترکہ سپریم کمیٹی" کا قیام ہے۔ اس کمیٹی کی ذمے داری علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کی خاطر وسیع پیمانے پر سلامتی اور استحکام کےکیلئے دونوں ملکوں کی قیادت کے اسٹریٹیجک وژن پر عملدرآمد یقینی بنانا ہے.

مئی دوہزار سولہ میں دونوں ملکوں نے مشترکہ رابطہ کونسل کے قیام کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کا مقصد باہمی مفاد کے امور پر رابطہ اور مشاورت کرنا ہے۔

معاہدے کے تحت کونسل دونوں ملکوں میں باقاعدگی سے اجلاس کرے گی.

کونسل کا پہلا اجلاس اکیس فروری دوہزار سترہ کو ابوظہبی میں ہوا جس میں دونوں ملکوں کے ایک سو پچاس سےزائد سرکاری اور نجی شعبے کے ماہرین نے شرکت کی۔ اجلاس میں باہمی تعاون اور وحدت کیلئے معاہدے کی متعلقہ شقوں پر عملدآمد یقینی بنانے کے طریقوں پر غور کیا گیا.

کونسل کا دوسرا اجلاس تیرہ اپریل دوہزار سترہ کو ریاض میں ہوا جس میں دونوں ملکوں کے مربوط معاشی نظام کو مضبوط کرنے کے طریقہ کار پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں موجودہ وسائل کو انفراسٹرکچر، ہاوسنگ، بیرونی شراکت داری، پیداوار، صنعت، زراعت، پانی، بنیادی سہولیات، تیل اور گیس، پیٹروکیمیکلز، نوجوانوں، حکومتی ترقی اور سہولتوں، سیاحت، قابل تجدید توانائی، کسٹمز اور مشترکہ منڈیوں کے شعبوں میں ا ستعمال کرنے کیلئے نئی راہیں تلاش کرنے پر غور کیا گیا.

جون دوہزار اٹھارہ میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اپنے دوطرف تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے گئے۔

دونوں ملکوں نے "العزم حکمت عملی" میں چوالیس مشترکہ اسٹریٹیجک منصوبوں کے زریعے معاشی ترقی اور عسکری انضمام کا مشترکہ وژن شامل کیا ۔ یہ حکمت عملی دونوں ملکوں کے تین سو پچاس سرکاری ، نجی اور عسکری حکام کی ایک سال سے زائد کی محنت کے بعد تیار کی گئی.

دونوں ملکوں کے تعلقات نے خطے اور پوری دنیا کی سلامتی اور استحکام بہتر بنانے میں بھی مدد کی ہے۔

دونوں ملکوں کی تاریخ عرب تنازعات کے حل کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ دوہزار گیارہ میں جب بحرین میں مظاہرے ہوئے تو خلیج تعاون کونسل کے معاہدے کے تحت وہاں افواج بھیج کر امن وامان اور استحکام قائم کیا گیا.

دونوں ملکوں نے خلیج تعاون کونسل میں ربط برقرار رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بحرین اور مصر کے ساتھ مل کر پانچ جون دوہزار سترہ کواسوقت قطر سے تعلقات منقطع کرلئے جب قطر کو علاقائی اور عالمی امن اور استحکام کو خطرے میں ڈالنےوالی حالیہ پالیسیوں سے باز رکھنے کی تمام سفارتی کوششیں ناکام ہوگئیں.

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے ایران کے انتشار پھیلانے والے کردار اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو خطرے سے دوچار کرنے کے منصوبو ں کو بھی اجاگر کیا جسکی تصدیق مئی دوہزار سترہ میں ریاض میں ہونےوالی خلیج امریکہ سربراہ کانفرنس اور عرب اسلامی امریکن سربراہ کانفرنس کے نتیجے میں کی گئی.

یمن کی جائز حکومت کی حمایت کرنے والااتحاد، جسکی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے اور متحدہ عرب امارات اور خطے کے دوسرے ملک حمایت کررہے ہیں، یمن میں قانون کی حکمرانی بحال کرنے اور ملک پر قبضہ کرنے کے بیرونی منصوبوں کو ناکام بنانے میں تاریخ رقم کررہا ہے.

دونوں ملکوں نے دوہزار چودہ میں داعش کیخلاف امریکی قیادت میں عالمی اتحاد میں شامل ہوکر شدت پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کی علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں بھی کر دار ادا کیا۔

دونوں ملکوں نے ثقافتی اور دانشوارانہ شدت پسندی کے خاتمےمیں بھی کلیدی کردار ادا کیا جسے عالمی برادری نے سراہا.

متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں تجارتی تعلقات بھی خلیج تعاون کونسل کے کسی دوسرے ملک سے زیادہ ہیں۔ متحدہ عرب امارات جی سی سی خطے میں سعودی عرب کا کلیدی تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دوہزار سترہ میں باہمی تجارت کا حجم اٹھاسی ارب تیس کروڑ درہم تک پہنچ گیا۔

متحدہ عرب امارات سعودی عرب کو برآمدات کرنے والے خلیج تعاون کونسل کے ممبر ملکوں میں سرفہرست ہے.

دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ سرمایہ کاری کا کردار بھی دوطرفہ تعلقات میں اہم ہے۔ متحدہ عرب امارات میں سعودی سرمایہ کاری کا حجم پینتیس ارب درہم سے تجاوز کرگیا ہے۔ دوہزار تین سو چھیاسٹھ کے قریب سعودی کمپنیاں اور چھیاسٹھ تجارتی ایجنسیاں متحدہ عرب امارات میں کاروبار کررہی ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں دو سو چھ سعودی منصوبے جاری ہیں جبکہ مشترکہ منصوبوں کی تعداد ایک سو چودہ ہے۔ سعودی منصوبوں کی مالیت پندرہ ارب ریال جبکہ سعودی عرب میں اماراتی منصوبوں کی مالیت نو ارب ڈالر سے زائد ہے.

ایک سو ارب ریال سے زائد مالیت کے "کنگ عبداللہ اکنامک سٹی" کا آغاز دونوں ملکوں کےاقتصادی تعلقات میں ایک اہم کامیابی ہے۔

بحیرہ احمر ساحلی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اماراتی کمپنی "اعمار" کی قیادت میں "اماراتی سعودی گروپ آف کمپنیز" قائم کیا گیا.

اقتصادی ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ سعودی اور متحدہ عرب امارات کی معیشتوں کو مربوط بنانے سے ایک اعشاریہ ایک ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی حاصل کی جاسکتی ہے۔ دوہزار سترہ میں سعودی عرب کی مجموعی مقامی پیدوار چھ سو پچاسی ارب ڈالر جبکہ متحدہ عرب امارات کی چار سو سات ارب ڈالر تک پہنچ گئی.

دونوں ملکوں کے درمیان سیاحت انکے تجارتی اور معاشی تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

سیاحت وہ شعبہ ہے جو سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے مواقع پیدا کرتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے آنے والی دہائیوں میں اس شعبے کی ترقی کیلئے خطیر رقم مختص کی ہے.

دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تعلقات انکے عوام کےدرمیان جغرافیائی اور سماجی رابطوں کے عکاس ہیں۔ یہ تعلقات کئی شعبوں جیسے تعلیم کے شعبے میں فروغ پارہے ہیں۔ اس شعبےمیں بڑھتے تعاون کے باعث متحدہ عرب امارات کے طلباء سعودی عرب کا سفر کرتے ہیں جہاں وہ مکہ مکرمہ ، ریاض اور دیگر شہروں میں سعودی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

اسی طرح کئی سعودی طلباء متحدہ عرب امارات کی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں.

ان ثقافتی تعلقات کی عکاسی دونوں ملکوں کے درمیان کئی مشترکہ ثقافتی معاہدوں اور پروگراموں ، اور ثقافتی اداروں، اساتذہ اور دانشوروں کے درمیان رابطوں سے بھی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے مشترکہ وژن، تاریخی تعلقات اور مشترک ثقافتی ، سماجی، جغرافیائی اور اقتصادی ورثے میں بھی دوطرفہ تعلقات نمایاں ہیں.