ہم نے ایک بہادر پولیس افسر کو کھو دیا، ترجمان پاک فوج

ایس پی طاہر داوڑ کا افغانستان میں قتل انتہائی قابل مذمت ہے، افغان رویے سے لگتا ہے کہ ایس پی داوڑ کا قتل صرف دہشتگرد تنظیم کا کام نہیں ہے۔ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 15 نومبر 2018 17:23

ہم نے ایک بہادر پولیس افسر کو کھو دیا، ترجمان پاک فوج
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 نومبر2018ء) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ہم نے ایک بہادر پولیس افسر کو کھو دیا ہے، ایس پی طاہر داوڑ کا افغانستان میں قتل انتہائی قابل مذمت ہے، افغان رویے سے لگتا ہے کہ ایس پی داوڑ کا قتل صرف دہشتگرد تنظیم کا کام نہیں ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر) کے مطابق ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ ایس پی طاہر داوڑ کی صورت میں ہم نے بہادر پولیس افسر کو کھو دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس پی طاہر داوڑ کا افغانستان میں بہیمانہ قتل انتہائی قابل مذمت ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ طاہرداوڑکا اغوا، افغانستان منتقلی اور پھر افغان حکومت کا رویہ بہت سے سوالات کوجنم دیتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ افغان رویے سے لگتا ہے کہ ایس پی داوڑ کا قتل صرف دہشتگرد تنظیم کا کام نہیں ہے۔ داوڑ کے قتل اور قتل کے بعد کی صورتحال سے لگتا ہے اس میں متعدد قوتیں ملوث ہیں۔

  پاکستانی حکام معاملے کی تحقیقات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پھراس کا اعادہ کرتے ہیں کہ افغان سیکیورٹی فورسز سرحد پر باڑ لگانے اورسیکیورٹی معاملے میں تعاون کریں تاکہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین کے استعمال کو روکا جاسکے۔ دوسری جانب وفاقی حکومت نے افغانی حکومت کا رویہ سفارتی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کرلیا، وزیرمملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ معاملہ سفارتی سطح پر اٹھائیں گے، افغان رویے پر غور کیلئے کل وزیراعظم ہاؤس میں اجلاس ہوگا۔

انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ جلال آباد میں پاکستانی قونصل جنرل کو ایس پی طاہر داوڑ کی میت نہ دینا سوالیہ نشان ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر طورخم سرحد آیا۔ جو رویہ طور خم باڈر پر دیکھا وہ تکلیف دہ تھا۔ اڑھائی گھنٹے ہمیں کھڑا کیا گیا پھر کہا کہ ہم پاکستان کو لاش نہیں دیتے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین پاکستان میں ہیں۔

آج ہم پر ففتھ جنریشن وار مسلط کی گئی ہے اس لیے مصدقہ اطلاع کے بغیر بات کرنا ٹھیک نہیں۔ جب مصدقہ اطلاع ملی تو پارلیمنٹ اور میڈیا دونوں پربات بھی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتشار پھیلانے کی سازش کی جارہی تھی۔ تاہم ہم سب کو ملکر سازشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ لاش نہ دینا شہید کی لاش پر پاکستان میں انتشار پھیلانا مقصد تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہر شہری کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ وطن کے سپوت کوافغانستان میں بے دردی سے شہید کیا گیا۔ طاہر داوڑ کے قاتلوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ طاہر داوڑ کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ اسی طرح آج جمعرات کو ایوان بالا میں پالیسی بیان دیتے ہوئے شہریار آفریدی نے کہا کہ طاہر داوڑ کی شہادت کا واقعہ انتہائی دل سوز اور تکلیف دہ ہے اور اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے اور خاص طور پر پولیس کے حوالے سے سوالیہ نشان ابھر کر سامنے آتا ہے، طاہر خان داوڑ شہید پاکستان کے غیرت مند بیٹے ہیں، ان پر پہلے بھی دو مرتبہ خودکش حملے ہوئے، ان کی جان کو اتنا خطرہ تھا کہ وہ سات سال خیبرپختونخوا سے باہر رہے اور2017ء میں ان کا خاندان منتقل ہو کر بہارہ کہو آ گیا، ان کے ایک بھائی اور بھابی کو بھی شہید کر دیا گیا، 26 اکتوبر کو سوا چھ بجے وہ جی ٹین میں ایک شادی کی تقریب میں پہنچے تھے، 7 بج کر 45 منٹ پر ان کے بھائی فرحان احمد الدین داوڑ نے تھانہ رمنا اسلام آباد میں رپورٹ درج کرائی، 28 اکتوبر کو ایف آئی آر درج کی گئی، یہ ایک حساس معاملہ تھا ان کا اپنے اہل خانہ کو جو آخری پیغام ملا اس میں انہوں نے کہا کہ ’’میں محفوظ ہوں اور آپ پریشان نہ ہوں‘‘، 13 نومبر تک انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تحقیقات کرتے رہے، 13 نومبر کو پہلی مرتبہ میت کی تصویر سامنے آئی، اس وقت تک کوئی مصدقہ خبر یا اطلاع نہیں تھی اس لئے کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔

14 نومبر کو افغان حکومت نے طاہر داوڑ شہید کی خبر کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ، آئی جی خیبرپختونخوا اور آئی جی اسلام آباد سے فوری طور پر انکوائری رپورٹ طلب کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک دشوار گزار سرحد ہے اور افغانستان کی طرف کوئی پیٹرولنگ کا طریقہ کار بھی نہیں ہے، اس پر ہم نے کئی بار بات بھی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سیف سٹی منصوبے کے تحت 1800 کیمرے لگائے گئے ہیں لیکن ایک کیمرے میں بھی اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ نمبر پلیٹ یا گاڑیوں میں سوار افراد کے بارے میں کوئی معلومات دے سکے حالانکہ 95 فیصد رقم تو ایم او یوز دستخط کرتے ہی جاری کر دی گئی تھی، اس وقت بھی 600 سے زائد کیمرے کام ہی نہیں کر رہے۔