کیا ملک میں دوبارہ انتخابات ہونے والے ہیں؟

اپوزیشن کا حکومت گرانے کی بجائے حکومت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ،حکومت گرانے کی صورت میں نئے انتخابات ترجیح ہوں گے،اپوزیشن جائزہ لے رہی ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو وہ کس قدر شفاف ہوں گے۔ میڈیا رپورٹس

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 17 جنوری 2019 12:38

کیا ملک میں دوبارہ انتخابات ہونے والے ہیں؟
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔17 جنوری2019ء) اپوزیش نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر لیا۔اپوزشین حکومت گرانے کے علاوہ کئی آپشنز پر غور کرنے لگ گئی ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن حکومت گرانے کا کریڈٹ لینے سے بھی گریزاں ہیں۔اپوزیشن ذرائع کے مطابق اپوزیشن نہیں چاہتی کے حکومت گرانے کا الزام حزب اختلاف پر آئے۔اپوزیشن کی کوشش ہے کہ حکومت کو زیادہ سے زیادہ دباؤ میں لایا جائے اپوزیشن حکومت پر دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کا جائزہ بھی لے رہی ہے۔

اپوزیشن ذرائع کے مطابق حکومت گرانے کی صورت میں نئے انتخابات ترجیح ہوں گے۔جائزہ لے رہے ہیں کہ الیکشن ہوئے تو کتنے شفاف ہوں گے کیونکہ الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ساری محنت اکارت جائے گی۔

(جاری ہے)

اپوزیش ذرائع کے مطابق قومی حکومت ایک آپشن ہے ترجیح نہیں۔اپوزیشن کی کوشش ہے کہ حکومت گرانے کی بجائے حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے کہ حکومت اس دباؤ کو برداشت نہ کر پائے اور خود ہی گر جائے۔

واضح رہے گذشتہ روز میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ قومی حکومت اور اِن ہاؤس تبدیلی کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے رہنماؤں سے بھی رابطے شروع کر دئیے ہیں۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ قومی حکومت کے متوقع وزیراعظم کے لیے بلاول بھٹو اورشہباز شریف کے نام سامنے آئے ہیں۔جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے دو سرکردہ رہنماؤں کے نام بھی متوقع وزیراعظم کے لیے دئیے گئے ہیں۔

یہ دونوں سینئیر رہنما پارٹی کے اندر لابنگ کرنے میں مصروف ہیں،ایک رہنما کا تعلق کے پی کے جب کہ دوسرے کا جنوبی پنجاب سے ہے۔ جب کہ بلوچستان سے اختر مینگل کا نام بھی سامنے آ سکتا ہے۔اپوزیشن کی طرف سے نمبر گیم حکومت کے برابر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے جن دو ناراض رہنماؤں سے رابطے رکھے ہوئے ہیں وہ وفاقی کابینہ کا بھی حصہ ہیں۔

اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس کے حامی ارکان کی تعداد اتنی ہے جتنی اس وقت حکومت کے پاس ہے۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے 85,پیپلز پارٹی کے 54، ایم ایم اے کے 16اور اے این پی کی ایک سیٹ ہے جب کہ اپوزیشن کو ایک آزاد امیدوار کی اہمیت بھی حاصل ہے اور ضرورت پڑے پر پی ٹی آئی کے دو رہنما بھی حمایت کر سکتے ہیں۔ نمبر گیم میں اس وقت اپوزیشن کے پاس 158 نشستیں ہیں جب کہپی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد 156 ہے ان حالات میں ایم کیو ایم کے 7ووٹ اہمیت اختیار کر گئے ہیں جب ق لیگ اور جی ڈے اے بھی حکومت سے ناخوش ہے۔