Live Updates

ایران میں کسی قسم کے عدم استحکام سے پاکستان کی سیکورٹی اور افغانستان میں جاری امن عمل پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

بھارت جنوبی ایشیاء میں سٹریٹجک توازن بگاڑ اور علاقائی سلامتی کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی بڑھتی سٹریٹجک مداخلت پاکستان کی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے، جموں و کشمیر کا تنازعہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن و سلامتی قائم ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے، پاکستان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں اپنے تجربات اور مہارت یورپی یونین کے ساتھ شیئر کو تیار ہیں، پاکستان کو دہشت گردی کے بنیادی خطرات کا اب بھی سامنا ہے جن میں دہشت گردوں کو بنیادی طورپر مالی معاونت، سہولت اور منصوبہ سازی بیرون ملک سے ملتی ہے، پاکستان پرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے پوری طرح پرعزم ہے تاہم افغانستان میں قیام امن تمام ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے، افغانستان میں پائیدار امن کیلئے اجتماعی اور باہمی طورپر قابل قبول شراکت اقتدار کا فارمولہ ہی قومی اتحادی حکومت کی راہ ہموار کرے گا، افغانستان میں عدم استحکام کا پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر براہ راست اثر پڑتا ہے، پاکستان امن کی بہتری اور باہمی احترام، خودمختاری کے یکساں احترام اور باہمی مفاد میں بھارت سمیت تمام ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا برسلز میں یورپی یونین کی سیاسی وسلامتی کمیٹی سے خطاب

منگل 25 جون 2019 17:54

ایران میں کسی قسم کے عدم استحکام سے پاکستان کی سیکورٹی اور افغانستان ..
برسلز ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2019ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خبر دار کیا ہے کہ ایران میں کسی قسم کے عدم استحکام سے پاکستان کی سیکورٹی اور افغانستان میں جاری امن عمل پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ بھارت جنوبی ایشیاء میں سٹریٹجک توازن بگاڑ اور علاقائی سلامتی کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ افغانستان میں بھارت کی بڑھتی سٹریٹجک مداخلت پاکستان کی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

جموں و کشمیر کا تنازعہ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن و سلامتی قائم ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں اپنے تجربات اور مہارت یورپی یونین کے ساتھ بانٹنے کو تیار ہیں، پاکستان کو دہشت گردی کے بنیادی خطرات کا اب بھی سامنا ہے جن میں دہشت گردوں کو بنیادی طورپر مالی معاونت، سہولت اور منصوبہ سازی بیرون ملک سے ملتی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان پرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے پوری طرح پرعزم ہے تاہم افغانستان میں قیام امن تمام ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کیلئے اجتماعی اور باہمی طورپر قابل قبول شراکت اقتدار کا فارمولہ ہی قومی اتحادی حکومت کی راہ ہموار کرے گا۔ افغانستان میں عدم استحکام کا پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔

پاکستان امن کی بہتری اور باہمی احترام، خودمختاری کے یکساں احترام اور باہمی مفاد میں بھارت سمیت تمام ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو برسلز میں یورپی یونین کی سیاسی وسلامتی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو نہایت اہمیت دیتا ہے۔

یورپی یونین نہ صرف پاکستان کا ایک روایتی حلیف ہے بلکہ ایک معاشی شراکت دار بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپین یونین کی اعلیٰ نمائندہ فیڈریکا موغرینی اور میں نے ’’سٹرٹیجک انگیجمنٹ پلان‘‘ پر دستخط کئے۔ ’’ایس ای پی‘‘ سے ہمارے تعلقات میں ایک نیا معیاری مرحلہ آئے گا اور ہمہ جہت تعاون کے فریم ورک کے ذریعے یہ شراکت داری مزید گہری ہوگی۔

جامع سیکورٹی ڈائیلاگ کے ذریعے امن وسلامتی میں شراکت داری اس حکمت عملی کا بنیادی ستون ہے۔ اگرچہ اس شعبہ میں بات چیت نئی نہیں اور پہلے سے وضع کردہ روابط پر نیا طریقہ کار استوار کیا جائے گا جو زیادہ جامع انداز میں آگے بڑھنے میں دونوں اطراف کی مدد کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا اس وقت بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ جغرافیائی وسیاسی تنازعات نہ صرف واپس لوٹ رہے ہیں بلکہ یہ تقسیم مزید گہری ہو رہی ہے۔

دنیا کے تقریباً ہر خطے میں تذویراتی استحکام خطرے سے دوچار ہے، ریاستوں میں باہمی اعتماد اور احترام ختم ہورہا ہے، موجودہ تنازعات پیچیدہ تر ہو رہے ہیں اور نئے تنازعات ابھرکر سامنے آرہے ہیں، دہشت گردی کے نئے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے جن کا ہمیں پہلے سامنا نہیں تھا، ’ہائی برڈ‘ اور ’سائیبر‘ خطرات سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا بھی ہمیں سامنا ہے اور وہ نئی شکل میں دنیا کی سلامتی کے لئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں۔

شاہ محمود نے کہا کہ جیواکنامک پہلو دراصل آج کی دنیا میں جیوپولیٹیکل اور اسٹرٹیجک مفادات کو متشکل کر رہے ہیں، غیر ملکی مصنوعات پر ٹیکسوں کے ذریعے مقامی صنعتوں کے تحفظ کا بڑھتا رجحان عالمی تجارتی نظام کے اصولوں کو غیر اہم بنا رہا ہے۔ معاشروں کے اندر تیزی سے تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ عدم برداشت اور انتہاء پسندی بڑھ رہی ہے، قوم پرست اور دائیں بازو کی قوتیں طاقتور ہورہی ہیں، غیرملکیوں سے نفرت اور اسلام سے خوف تہذیبوں کے تصادم کے گمراہ کن نظریات کو تقویت دے رہا ہے۔

یہ تمام رجحانات مشترکہ طورپر خطوں کے اندر اور ان سے باہر امن وسلامتی کے لئے ایک فوری خطرہ ہیں۔ وزیر خارجہ نے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کی صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطہ عجیب نوعیت کے ’جیوسٹرٹیجک‘ ماحول کی وجہ سے بے پناہ دبائو میں ہے۔ غربت، ناخواندگی اور پسماندگی کی مشکلات اس خطے کے لئے پہلے سے موجود رکاوٹوں کو مزید بڑھا رہی ہے۔

پاکستان شاید دنیا میں واحد ملک ہے جس نے عظیم جانی ومالی قربانیاں دے کر دہشت گردی کی خوفناک لہر کا رٴْخ موڑ کر رکھ دیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہاء پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پاکستانی قوم پرعزم ہے۔ آپریشن "ضرب عضب" اور "ردالفساد" نے اس ضمن میں عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ’نیشنل ایکشن پلان‘ پر عمل درآمد کے ثمرات کے نتیجے میں ملک کے طول وعرض میں شہروں اور قصبات میں امن اور خوشحالی کافی حد تک لوٹ آئی ہے۔

داخلی اور بین الاقوامی سطح پر سیاحت کا فروغ دہشت گردی کے خلاف ہماری اس کامیابی کا عملی ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ نے اسلام آباد کا ’فیملی سٹیشن‘ کا درجہ بحال کردیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کی بصیرت افروز قیادت کے تحت پاکستان ایک ذمہ دار اور عالمی ضابطوں پر عمل کرنے والے ملک کی حیثیت سے اپنے لئے زیادہ بڑا کردار دیکھ رہا ہے۔

پاکستان امن، تحمل اور پرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رح کے رہنما اصولوں پر کاربند ہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’ہماری خارجہ پالیسی تمام اقوام عالم کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی کی حامل ہے‘‘۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کے ساتھ امن اور رابطے استوار کرنے کی پیشکش اور کشمیر سمیت تمام تنازعات پر بات چیت کے لئے ہماری آمادگی، افغانستان پاکستان ایکشن پلان برائے امن واخوت (اے پی اے پی پی ایس) اس امر کا واضح مظہر ہے۔

ہم نے حال ہی میں کرتار پور راہداری کھولنے کا اقدام بھی ہمسایوں سے جڑنے اور امن کی جستجو میں کیا ہے۔پاکستان امن کی بہتری اور باہمی احترام، خودمختاری کے یکساں احترام اور باہمی مفاد میں بھارت سمیت تمام ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے پرعزم ہے۔بھارت نے پاکستان پر باربار دہشت گردی سے متعلق الزامات عائد کئے۔ ہم نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ دہشت گردی کے معاملے پر بھی بات کرنے پر آمادہ ہے، ہمیں عار نہیں، کیونکہ ہمارے خلاف دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے بھی سنجیدہ امور ہمارے علم میں ہیں۔

بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر کمانڈر کلبھوشن یادیو پاکستان کی حراست میں ہے جس نے ٹھوس شواہد فراہم کرنے کے علاوہ اس امر کا اعتراف بھی کیا ہے کہ اس نے اپنی حکومت کی ہدایت پر پاکستان میں دہشت گردی اور تشدد کی لہر اٹھائی ، اس کے لئے وسائل فراہم کئے اور منصوبہ بندی کے ذریعے ان وارداتوں پر عمل کرایا۔وزیر خارجہ نے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کے حوالے سے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور بھارت میں روایتی ہتھیاروں میں بڑھتا ہوا عدم توازن بھی جنوبی ایشیاء کا تزویراتی استحکام خطرے میں ڈال رہا ہے۔

جدید فوجی سازوسامان کی فراہمی میں بعض ممالک کی جانب سے حساس ٹیکنالوجیز بھارت کو دے کر اور بھارت کی جانب سے جارحانہ قوت اور نظریہ اختیار کرکے امتیازی سلوک برتا جارہا ہے جس سے جوہری تنازعہ کی کسی صورتحال کا بخوبی ادراک حاصل کیاجاسکتا ہے۔ عدم استحکام کے ان حالات میں پاکستان کے پاس اور کوئی چارہ کار نہیں کہ اپنی کم ازکم دفاعی صلاحیت برقرار رکھے، ہم جنوبی ایشیاء میں تزویراتی ضبط وتحمل کے نظام کے حامی ہیں۔

’نیٹ سکیورٹی پروائیڈر‘‘، ’’اکنامک اینکر‘‘ اور ’’چین کے کاونٹر ویٹ‘‘ کے طورپر بھارت کا تصور جنوبی ایشیاء میں سٹرٹیجک توازن بگاڑ رہا ہے اور علاقائی سلامتی کو داؤ پر لگارہا ہے۔ اسی اثناء افغانستان میں بھارت کی بڑھتی سٹرٹیجک مداخلت پاکستان کی سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کررہی ہے۔جموں وکشمیر اپنی جگہ ایک اور ایسا تنازعہ ہے جو جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن وسلامتی قائم ہونے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

کشمیر کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کو سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کررہا ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی منظور کردہ مختلف قراردادوں کے تحت اپنا حق استصواب رائے مانگ رہے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی مقامی اور قانونی طورپر جائز جدوجہد کو ’’دہشت گردی‘‘ کے ذریعے دبانے کی کوشش کررہا ہے، طاقت کے بہیمانہ استعمال کے نتیجے میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں ہورہی ہیں۔

بھارتی جارحیت کے حوالے وزیر خارجہ نے کہا کہ بھارت کی جانب سے 26 فروری کو اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الریاستی اقدار اور عالمی قانون کی پاسداری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی خودمختاری اور فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی کی گئی۔ اس ناقابل قبول جارحیت پر پاکستان نے نہایت تحمل لیکن مضبوط عزم کے ساتھ ردعمل دیا۔عالمی برادری نے ایک مرتبہ پھر اعتراف کرتے ہوئے اس بحران میں پاکستان کے مثبت طرز عمل کو سراہا۔

ہم بین الاقوامی برداری کے بھی شکرگزار ہیں جس نے اس ممکنہ تباہ کن صورتحال کو روکنے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ دوجوہری قوتوں کے درمیان کسی قسم کے تناو کا نہ صرف تصور محال ہے بلکہ سادہ الفاظ میں یہ خودکشی کے مترادف ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دانائی اور ان امور سے احتیاط کے ساتھ نبردآزما ہونے کا مظاہرہ ہوگا۔ہماری سوچی سمجھی رائے میں جموں وکشمیر سمیت تمام تنازعات کے پرامن حل کے لئے جامع مذاکرات اور مسلسل روابط کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔

افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان پہلے ہی عالمی طاقتوں کی مخاصمت اور سٹرٹیجک غلط اندازوں کے نتیجے میں بہت تکالیف اٹھاچکا ہے۔دہائیوں کے تنازعہ کے بعد بھی افغانستان میں امن کا خواب ادھورا ہے۔ مزاحم قوتیں سیاسی وتزویراتی منظر نامے اور ملک پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ غیرجانبدارانہ رپورٹس کے مطابق طالبان کے زیر اثر علاقوں میں مزید اضافہ ہوا ہے جو تقریبا ستر فیصد ہے۔

داعش اور ’ٹی ٹی پی‘ ’’ٹرانس نیشنل ایجنڈے‘‘ سے بڑھ کر شمال اور شمال مشرقی افغانستان میں سکیورٹی خلاء کا ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہے۔ عام شہریوں اور فوجی ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔نسلی کشیدگی نے صورتحال مزید پیچیدہ بنادی ہے۔ ٹوٹ پھوٹ کے شکار سیاسی منظرنامے، قیادت کی محدود استعداد، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال، وار اکانومی اور منشیات سے حاصل ہونے والی بھاری آمدنی جیسے مسائل اس پر مستزاد ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام کا پاکستان کی سلامتی اور استحکام پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ہم چالیس سال سے لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کررہے ہیں۔ یہ زمانہ جدید میں سب سے طویل عرصے تک مہاجرین کو اپنے ہاں امان فراہم کرنے کی منفرد اور نادر مثال ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کئی ترقیاتی منصوبے مکمل کئے گئے ہیں، اپنی یونیورسٹیوں اور پیشہ وارانہ کالجوں میں پچاس ہزار افغانوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یورپ، مہاجرین جتھوں کی آمد اور یورپ میں مہاجرین مخالف بڑھتی ہوئی لہر کے تناظر میں ہمارے چیلنج کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ یورپ ہم سے وسائل میں کہیں بڑھ کر ہے لیکن انہیں مہاجرین کی ایک نہایت ہی قلیل مدتی صورتحال نے مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ہم افغانستان سے آئے مہمانوں کی جلد، باوقار، آبرومندانہ اپنے وطن واپسی کے خواہاں ہیں۔

اس سے جرائم پیشہ اور نامطلوب عناصر کی سرحد پار نقل وحرکت کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اپنی مغربی سرحد پر سرحدی انتظام کا ایک جامع نظام وضع کررہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر سول اور مسلح افواج کی استعداد کار اور قوت میں اضافہ کررہے ہیں، اس میں بھی نمایاں بہتری آرہی ہے۔ حکومت نے پہلے ہی قبائلی علاقوں کو اضلاع میں تبدیل کردیا ہے تاکہ گورننس کو بہتر بنایاجائے اور مقامی آبادی کی قومی تعمیری سرگرمیوں میں شرکت بڑھائی جائے۔

پاکستان مذاکرات کے ذریعے افغان تنازعہ ختم کرنے کا آرزو مند ہے۔ ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ اس کا کوئی ’’فوجی حل نہیں‘‘ ہے۔ ہم پرعزم ہیں کہ ’’افغانوں کے اپنے اور ان کی اپنی قیادت میں‘‘ امن عمل سے ہی افغانستان کے مسئلے کا حل نکلے گا۔ہم افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کوششوں کی مکمل حمایت کررہے ہیں۔ پاکستان نے اپنے محدود اثرورسوخ اور کردار کے ذریعے افغانستان کے مسئلہ کے حل کی کوشش میں امریکہ اورطالبان کے ’’بااختیار نمائندگان‘‘ میں براہ راست مذاکرات کے انعقاد میں سہولت کاری فراہم کی۔

ہم نے ملاں برادر اور دیگر طالبان قیدیوں کو رہا کیا تاکہ اس عمل کو مہمیز ملے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے تمام سطحوں پر سفارتی کوششیں تیز کیں تاکہ امن عمل میں یکجائی آئے اور رکاوٹوں پر قابو پایا جاسکے۔ امریکہ اورطالبان ہم مناصب سے مسلسل رابطوں کے علاوہ میری روس، چین اور ایران کے وزرائے خارجہ سے ملاقاتیں ہوئیں تاکہ امن عمل آگے بڑھ سکے۔

اس ضمن میں مارچ میں اسلام آباد کے دورہ کے موقع پر یورپی یونین کی اعلی نمائندہ فریڈریکا موغیرینی سے میری تفصیلی اور بامقصد گفتگو ہوئی تھی۔ہمارے خیال میں افغانستان کے مستقبل کا خارکہ تیار کرتے ہوئے چار کلیدی امور پر لازماً توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور انہیں نظرانداز نہ کیاجائے۔اول یہ کہ افغانستان کاتنازعہ نسلی، قبائلی، وارلارڈز، مزاحمتی قوتوں اورسیاسی دھڑوں کے باہمی ملاپ سے انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرچکا ہے۔

پائیدار امن کے لئے تمام مقامی فریقین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ایک اجتماعی اور باہمی طورپر قابل قبول شراکت اقتدار کا فارمولا ہی قومی اتحادی حکومت کی راہ ہموار کرے۔دوم یہ کہ امن عمل کی ’عالمی اونرشپ‘ کے علاوہ وسیع علاقائی اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔ افغانستان کے ہمسایوں کا کردار جاری" امن عمل" میں اہم ہے۔ علاقائی سطح پر ’کیو سی جی، ، ’ایس سی او۔

رابطہ گروپ، ’کابل عمل‘، ’ماسکو عمل‘ اورحال ہی میں ’لاہور عمل‘ افغانستان میں امن قائم کرنے کی مجموعی کاوشوں کو تقویت دینے میں سب اہم ہیں۔ عالمی، علاقائی ا ور داخلی سطحوں پر یکساں نکات کی نشاندہی کے ذریعے مذاکرات کی وسیع قبولیت درکار ہے۔سوئم: کسی پسندیدہ عنصر کی سرپرستی سے احتراز برتا جائے۔ مستقبل کے سیاسی نظام کے لئے سیاسی غیرجانبداری کا رویہ اپنانا ہی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔

اس مقصد کے لئے مستقبل کے سیاسی نظام میں افغانوں کی مقامی نسل اور آبادی کی زیادہ سے زیادہ تعداد میں نمائندگی اور شرکت کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ہمیں افغانستان کی تاریخ سے صرف نظر نہیں کرنا چاہے۔چہارم: سابق امن عمل کے بدقسمت ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس عمل کو پٹڑی سے اتارنے والے عناصر پر نگاہ رکھنا ضروری ہے جو امن کوششوں کو متاثر کرنے کی کوشش کریںگے۔

بعض قوتیں ایسی ہیں جن کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی وہ جغرافیائی طورپر اس میں سموئی جاسکتی ہیں، ان کا کام صرف افغان سیاسی تصفیہ میں مسائل اور رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔ ان عناصر کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان ایسے پرامن اور مستحکم افغانستان کے لئے پوری طرح سے پرعزم ہے جو دہشت گرد گروپوں جیسے القاعدہ، ٹی ٹی پی اور داعش کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دے۔

ایک مشترکہ ذمہ داری کے طورپر پاکستان دیگر فریقین کے ہمراہ امن عمل میں ممکنہ سہولت کاری فراہم کرنے پر آمادہ ہے۔ تاہم پیش نظر رہنا چاہئے کہ یہ سب لوگوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے۔ہم یورپی یونین کے افغان امن عمل میں واضح اور مستقل کوششوں میں ’سٹیکس‘ سے آگاہ ہیں۔ اس کی کاوشیں نمایاں ہیں اور کثیر الجہتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے جامع انداز فکر اپنائے ہوئے ہے۔

نیشنل ایکشن پلان جامع فریم ورک مہیا کرتا ہے۔ قومی طاقت کے تمام عناصر اس ضمن میں بروئے کار لائے گئے تاکہ اس عفریت کا قلع قمع ہو۔ دولاکھ فوجی دستوں کی تعیناتی سے پاکستان نے دنیا میں سب سے بڑی اور موثر انسداد دہشت گردی کی مہم چلائی ہے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انتہائی جرات، بہادری، عزم اور پیشہ وارانہ لیاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

استحکام کی وطن میں واپسی کے ساتھ ہی ہم ان انتہائی مشکل سے حاصل ہونے والے امن کے ثمرات کو محفوظ بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ تاہم پاکستان کو دہشت گردی کے بنیادی خطرات کا سامنا اب بھی ہے، جن میں دہشت گردوں کو بنیادی طورپر مالی معاونت، سہولت اور منصوبہ سازی بیرون ملک سے ملتی ہے۔پاکستان کا پختہ یقین ہے کہ انسداد دہشت گردی کے لئے تعاون اور شراکت داری پر مبنی سوچ درکار ہے۔

اس ضمن میں یورپی یونین کے اقدامات کی قدر کرتے ہیں جن کے تحت نئے سکیورٹی ڈائیلاگ کی صورت میں تعاون اور رابطوں نے شراکت داری کو مزید فروغ دیا۔ اسے ’سٹرٹیجک اینگیجمنٹ پلان‘ کے تحت قائم کیاگیا ہے۔ یہ عمل قبل ازیں انسداد دہشت گردی اور عدم پھیلاو اور اسلحہ کی تخفیف کے موجودہ سالانہ ڈائیلاگ کی صورت میں استوار تھا جسے اب نئے پلان سے بدل دیاگیا ہے۔

ہم یورپی یونین کوسراہتے ہیں جس نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں استعداد کار میں پاکستان کی مدد کی۔ انسداد دہشت گردی کے شعبے میں ہم اپنا تجربہ اور مہارت آپ کے ساتھ بانٹنے کو تیار ہیں جو ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے دقت طلب حالات میں بڑی قربانیوں کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ دہشت گردی کے عفریت سے نجات پانے کے لئے ہم اپنے تجربات اور مہارتیں یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ اجتماعی طورپربانٹنے کے لئے تیار ہیں۔

وزیر خارجہ نے ایران کی صورتحال پر تشویش کااظہار کیا جو امریکہ اور ایران کے درمیان عالمی اور علاقائی امن اور سلامتی کے لئے سنگین خطرہ بنتی جارہی ہے۔انہوں نے خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں کسی قسم کے عدم استحکام کے پاکستان کی سکیورٹی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے اور کثیرالجہتی چیلنجوں کا اسے سامنا کرنا پڑے گا۔ ایسی کسی بھی صورحال کا نتیجہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کی صورت میں برآمد ہوگا جبکہ ہمارے پڑوس میں موجود علاقائی قوتوں کی موجودگی الگ سے مسئلہ ہے۔

خطے میں ایسی کسی بھی صورتحال کے افغانستان میں جاری امن عمل پر بھی بہت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔پاکستان یقین رکھتا ہے کہ ’جے سی پی اواے‘ ایک نہایت اہم کامیابی ہے جسے محفوظ رکھنا چاہئے خاص طورپر ’آئی اے ای اے‘ نے بارہا تصدیق کی ہے کہ ایران معاہدے کی شرائط کار کی سختی سے پابندی کررہا تھا۔ ہم یورپی یونین کی اس معاہدے کو بچانے اور اس کے تحت وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے کاوشوں کا نہ صرف اعتراف کرتے ہیں بلکہ انہیں خوش آمدید بھی کہتے ہیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات