انسانی حقوق کے کارکنوں ،کشمیر ی دانشوروں کا کشمیری نوجوانوںکو تعذیب خانوں میں منتقل کرنے کے جنرل راوت کے بیان پر اظہار تشویش

ہفتہ 18 جنوری 2020 18:15

نیو یارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جنوری2020ء) انسانی حقوق کے کارکنوں اور کشمیری دانشوروں نے کشمیری نوجوانوں کو تعذیب خانوں میں منتقل کرنے کے بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کے بیان پر گہری گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔بھارت نے کشمیری نوجوانوںپر تشدد اور انہیں قتل کرنے کے لئے نازی طرز کے تعذیب خانے بنانے کا منصوبہ بنا لیا ہے جسکا واضح اشارہ سابق جنگجو بھارتی آرمی چیف اور موجودہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے نئی دہلی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز ‘‘میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں حقوق کارکنوں اور کشمیری دانشوروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنرل کے الفاظ سے انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی فوج کشمیری عوام کو کس طرح کی نظروں سے دیکھتی ہے اور یہ کہ جنرل راوت کا بیان اقعات کو ایک اور پریشان کن موڑ دے سکتا ہے۔

(جاری ہے)

اخبار نے ایک کشمیری تاریخ دان صدیق وحید کاحوالہ دیا جنہوں نے کہا کہ ان کیلئے یہ انتہائی پریشان کن ہے کہ جنرل راوت نے اس طرح کی تجویز دی ہے ۔

صدیق واحد نے کہا کہ انکا یہ خیال نہیں کہ جنرل راوت کو اپنے پاگل پن کا احساس ہو جائے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ راوت کے لفظ "کیمپ" کے استعمال کے بارے میں فکر مند ہیں۔ صدیق واحد نے استفسار کیا کہ کیا یہ موسم گرما کے کیمپوں یا ایک سالہ کیمپوں کی بات ہورہی ہے جہاں آپ لوگوں کی پہچان چھین کر ان کی تعمیر نو کرتے ہیں۔

اخبار نے لکھا کہ سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر نور احمد بابا کا کہنا ہے کہ اب بھارت کشمیر میں تمام سیاسی اختلافات کو کچلنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے جس کے سیاسی حل کی ضرورت ہے تعذیب خانوں کی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کیمپوں کے بارے میں سوچنا بھی خطرناک ہے اوریہ جمہوری نظام حکومت کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ۔

نیویارک ٹائمز نے ممبئی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن ساکت گوکھلے کا بھی حوالہ دیا ہے جنکا کہنا ہے کہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ انہوں نے بھارت میں تعذیب خانوں کے بارے میں سنا ہے۔ انسانی حقوق کارکنوں اور کشمیری دانشوروں نے یہ بھی کہا کہ نریندر مودی کی حکومت کی حکومت میں پل بھر میں کچھ بھی ہوسکتا ہے جسکا چند برس قبل تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

نیویارک ٹائمز نے مزید لکھا کہ نریندر مودی کی جماعت ایک مذہبی قوم پرست نظریے کو فروغ دے رہی ہے جسکے بارے میں ناقدین کی رائے یہ ہے کہ اسکا فائدہ بھارت کی ہندو اکثریت کو مل رہا ہے جبکہ مسلم اقلیت دور دھکیلی جا رہی ہے ۔ اخبار نے لکھا کہ نریندرمودی کی حکومت نے گزشتہ ماہ ایک انتہائی تفرقہ انگیز قانون(شہریت ترمیمی ایکٹ) پاس کیا جو سوائے مسلمانوں کے تمام مہاجروں کے لئے بھارتی شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ مذکورہ قانون کے خلاف بھارت بھر پر حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔