کونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرز نے پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2019 جاری کر دی

پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی شق 11، 20اور 37کو ختم اور شق 9اور 10میں موجود ابہام دور کیا جائے تاکہ صحافی اس کا نشانہ نہ بن سکیں، صدر سی پی این ای سیفٹی آڈٹ سے صحافیوں اور دیگر عملے کو ممکنہ خطرات کا پہلے سے اندازہ لگا کر روک تھام کی جا سکے گی سائبرقوانین کو میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کے لیے کسی نہ کسی بہانے سے سال 2019 میں بھی بھرپور استعمال کیا گیا، سی پی این ای کی رپورٹ میں انکشافات

اتوار 19 جنوری 2020 19:30

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 جنوری2020ء) کونسل آف پاکستان نیوزپیپرایڈیٹرز نے پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2019 جاری کر دی۔ سی پی این ای کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو سخت خطرات کا سامنا ہے۔ 2019میں پاکستانی میڈیا کو سخت پابندیوں، سختیوں، قتل اور سنسرشپ کے مسائل کا سامنا رہا۔صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ملک بھر میں سات صحافیوں کو قتل اور 15 سے زائد کو زخمی کر دیا گیا۔

قتل ہونے والے صحافیوں میں عروج اقبال، مرزا وسیم بیگ، محمد بلال خان، علی شیر راجپراور ملک امان اللہ خان شامل تھے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت 35 مقدمات میں 60سے زائد صحافیوں کو نامزد کیا گیا۔ تحریری مواد رکھنے کے الزام میں ایک صحافی کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔

(جاری ہے)

بظاہرنامعلوم عناصر اور غیر ریاستی عوامل کی جانب سے بھی صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کو دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

18 ویں آئینی ترمیم کے بعد معلومات تک رسائی کا صوبائی قانون بنانے میں خیبرپختونخواہ پہلے نمبر پر رہا۔وفاق، پنجاب اور سندھ نے خیبرپختونخواہ کے بعد معلومات تک رسائی کا قانون بنا یا۔بلوچستان میں معلومات تک عام شہریوں کی رسائی 2019 میں بھی ایک خواب ہی رہی۔سائبرقوانین کو میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کے لیے کسی نہ کسی بہانے سے سال 2019 میں بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔

سی پی این ای نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے میڈیا کے گرد شکنجے کو مزید سخت کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ خصوصی میڈیا ٹریبونلز بنانے کا بھی اعلان کیاگیا، سی پی این ای اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالفت پرواپس لیا گیا۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں خراب ترین کارکردگی والے 180 ممالک میں پاکستان کا نمبر 142 واں ہے۔پیمرا نے ٹیلی ویژن چینلز کو بے تحاشا نوٹسز بھیجے، اینکرزپرغیرقانونی پابندیاں لگائیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کا معاملہ ٹاک شوز میں زیربحث نہ لانے کا حکم دیاگیا۔ نیوز چینلز کواحکامات صادر کیے گئے کہ پی ایم ایل ن کی رہنما مریم نواز کی پریس کانفرنس کو براہ راست کوریج نہ دی جائے۔ خلاف ورزی کے نام پر 21 ٹی وی چینلز کو نوٹس بھی جاری کیے گئے۔ جیوٹی وی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے انٹرویو پر مبنی براہ راست نشریات کوشروع ہونے کے فورا بعد بند کرادیا گیا۔

مولانا فضل الرحمان کی کوریج کرنے پر جیو نیوز، 24 نیوز، ابتک، کیپٹل اور ڈان نیوزکی نشریات کو بندکیا گیا۔ وزیراعظم کی شکایت پر چینل 24 نیوز کو نوٹس جاری کر کے 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیاگیا۔ رپورٹ کے مطابق کم ازکم 60 صحافیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی اور دیگر ایسے قوانین کے تحت 35 مقدمات درج کیے گئے۔ مقدمات کا سامنا کرنے والے 50 سے زیادہ صحافیوں کا تعلق صرف صوبہ سندھ سے تھا۔

صدر سی پی این ای عارف نظامی نے سفارشات مرتب کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صحافیوں کی حفاظت کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی قوانین نافذ کیے جائیں۔ وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی پراسیکیوٹرز تعینات کیے جائیں۔ میڈیا ہاوسز اور صحافتی تنظیمیں اپنا ضابطہ اخلاق بنا کر اس پر عمل کریں۔ میڈیا ہاوسز کی سطح پر سیفٹی پالیسی، سیفٹی پروٹوکول اور سالانہ سیفٹی آڈٹ کے رجحان کو بھی فروغ دیا جائے۔

عارف نظامی نے مزید کہا کہ سیفٹی آڈٹ سے صحافیوں اور دیگر عملے کو ممکنہ خطرات کا پہلے سے اندازہ لگا کر روک تھام کی جا سکے گی۔ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کی شق 11، 20 اور 37کو ختم اور شق 09 اور 10 میں موجود ابہام دور کیا جائے تاکہ صحافی اس کا نشانہ نہ بن سکیں۔صحافیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت درج مقدمات کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔