نازی دور میں نوآبادیاتی بچوں کی نس بندی کی داستان

DW ڈی ڈبلیو اتوار 17 جنوری 2021 12:00

نازی دور میں نوآبادیاتی بچوں کی نس بندی کی داستان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جنوری 2021ء) جوزف کائزر کی عمر اُس وقت 16 برس تھی جب نازی دور کی خفیہ پولیس 'گیسٹاپو‘ نے اُسے اُٹھا کر لُڈویگس ہافن کے سرکاری ہسپتال پہنچا دیا اور وہاں اُس کی مرضی کے خلاف اُس کی جبری نس بندی کر دی گئی تھی۔ اُس کے ساتھ ساتھ اُس کی بہن اور سینکڑوں دیگر نوجوانوں کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔

ان کا واحد قصور یہ تھا کہ یہ ایسی جرمن ماؤں کے ہاں پیدا ہوئے جن کا کسی فرانسیسی نوآبادیاتی سپاہی سے جنسی تعلق قائم ہوا تھا اور اس کے نتیجے میں ان کا وجود اس دنیا میں آیا۔

رائن لینڈ میں فرانسیسی نو آبادیاتی فوجی

اس سفاکانہ کارروائی کی داستان رائن لینڈ پر اتحادیوں کے قبضے سے کوئی 17 سال قبل شروع ہوتی ہے، اتحادیوں کا یہ قبضہ دراصل 'ٹریٹی آف ورسائے‘ یعنی مشہور زمانہ 'ورسائے معاہدے‘ کے تحت جرمنی پر زبردستی مسلط کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

1920ء میں فرانس کی طرف سے رائن لینڈ بھیجے گئے ایک لاکھ فوجیوں میں سے لگ بھگ ایک چوتھائی فرانسیسی نو آبادیاتی کالونیوں سے تھے۔ جیسے کہ جوزف کے باپ کا تعلق مڈاگاسکر سے تھا۔ ان سپاہیوں کی موجودگی نئی نئی تشکیل شدہ وائمر ریپبلک کے سیاسی ماحول میں کشیدگی کا سبب بنی۔ جرمنی کے نو آبادیاتی علاقے کھو جانے کے بعد ان سپاہیوں کو ایک بڑی ذلت کا احساس ہونے لگا۔

سرکاری اور نجی تنظیموں کی طرف سے ایک پراپیگنڈا مہم ' دی بلیک شیم‘ یا 'سیاہ شرم ‘ چلائی گئی۔ اس کے علاوہ ایسے کتابچے، پیمفلٹس اور مضامین شائع کیے گئے جن میں نوآبادیاتی سیاہ فام سپاہیوں کو ' وحشی حیوان‘ کے طور پر پیش کیا گیا جو سول آبادی پر حملہ کرتے، عورتوں کا 'ریپ‘ اور قتل کرتے تھے۔

’بلیک شیم‘ اور نسل پرستی پر اتفاق

اس مہم کو صرف قوم پرست یا قدامت پسند حلقوں نے نہیں چلایا تھا۔

جرمن معاشرے میں نسل پرستی اور 'ایجینکس‘ کی جڑیں گہری تھیں۔ 'ایجینکس‘ دراصل ایک برطانوی محقق اور مصنفSir Francis Galton کے پیش کردہ مفروضے کو بنیاد بنا کر اپنائے جانے والے عقائد اور طریقہ کار کا مجموعہ ہے جس کا مقصد انسانی آبادی کے جینیاتی معیار کو بہتر بنانا تھا۔ یعنی انسانوں اور ان کے نسلی گروہوں کو بہتر اور کمتر سمجھتے ہوئے ان کی درجہ بندی کرنا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا تھا۔

اسی نظریے کے تحت ہٹلر نے نازی دور میں جسمانی یا ذہنی معذوری کے شکار انسانوں کو تعصب اور امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا تھا۔

یہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے سیاست دان تھے، مثلاً 'وائمر ریپبلک‘ کے صدر ایبرٹ یا وزیر خارجہ کؤسٹر تھے جنہوں نے فرانسیسی فوج کی جرمنی میں تعیناتی پر 'ثقافتی سطح کی پستی‘ اور جرمن قوم کے ساتھ 'کیا جانے والا نفسیاتی جرم‘ جیسی اصطلاحات کا 'لیبل‘ لگا دیا۔

اس سارے عمل کو اگر سیاسی توڑ جوڑ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس نظریے سے ایک طرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بیرونی دنیا میں بھی نسل پرستی پائی جاتی ہے۔ دوسری جانب اسے 'معاہدہ ورسائے‘ کی دفعات کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کا مقصد جرمنی کے ساتھ مشترکہ تعصبات کی بنیاد پر بین الاقوامی یکجہتی کو بحال کرنا تھا۔

دفتر خارجہ کے پراپیگنڈا مواد کے ذریعہ نوآبادیاتی فوجیوں کے بارے میں بدنامی سے بھرپور مضامین چھپے۔ برطانوی لیبر پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ایڈمنڈ ڈینی مورل نے اپنے مضمون میں فرانس پر الزام عائد کیا کہ اُس نے جرمنی کی آبادی پر 'جنگلی کالوں‘ اور 'وحشی بربروں‘ کو مسلط کیا جن کی درندگی پہلے ہی لاتعدد 'ریپ‘ کا سبب بن چُکی ہے۔

یہ پراپگینڈا رفتہ رفتہ کمزور ہوتا گیا اور اس کے پیچھے خارجہ پالیسی سے متعلق جو ارادے تھے وہ کامیاب نہ ہو سکے۔

نازی دور میں جبری نس بندی

1923 ء کے اوائل میں وائمر ری پبلک کے حکام نے بچوں کی ریجسٹریشن کا کام بڑے منظم طریقے سے شروع کر دیا۔ 1927ء میں ایک سرکاری عہدیدار نے وزارت صحت میں اپنے اعلیٰ افسران سے اپیل کی کہ وہ ' نس بندی‘ کے ایسے امکانات کی جانچ پڑتال کریں جو 'بغیر کسی تکلیف دہ عمل کے آسانی سے بروئے کار لایا جا سکے تاہم جرمن قانون کے مد نظر اسے رد کر دیا گیا۔

خاص طور سے اس لیے بھی کے جرمن ماؤں سے پیدا ہونے والے بچے جرمن قانون کے تحت جرمن شہری ہوتے ہیں۔ لیکن یہ محض تاخیر تھی۔ جوں ہی نشنل سوشلسٹ اقتدار میں آئے بچوں کی ریجسٹریشن کے عمل میں توسیع کر دی گئی۔ بچوں کی پیمائش کی گئی اور ان کی تصاویر اتار لی گئیں۔ 1937ء میں گسٹاپو کے 'خصوصی کمیشن‘ کی بنیاد رکھی گئی جسے قائد کے خفیہ احکامات پر تیار کیا گیا اور آخر کار بچوں کی غیر قانونی نس بندی کا انتظام کر لیا گیا۔

ایسے 436 کیسز کی دستاویزات درج ہوئیں تاہم غیر رپورٹ شدہ اور بغیر دستاویزی ثبوت والے کیسز کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔

مقدمہ خارج

نازی دور کے خاتمے کے دو سال بعد ان کیسز سے متعلق مقدمات چلائے گئے۔ ان میں ملوث تین ڈاکٹروں پر فرد جرم عائد کی گئی۔ یہ سب نیشنل سوشلسٹ جرمن میڈیکل ایسوسی ایشن کے اراکین تھے۔ ان پر الزامات کا تعلق نس بندی کے عمل کے دوران بچوں کو جسمانی طور پر آنے والے زخم اور ان کی تولیدی صلاحیتوں کو ختم کرنے سے تھا تاہم کسی ایک ملزم نے بھی مقدمے کی سماعت کے دوران یہ تاثر نہیں دیا کہ انہیں اپنے کیے ہوئے گھناؤنے مظالم کا احساس ہے۔

اپنے دفاع میں انہوں نے محض یہ کہا کہ انہوں نے یہ اپنے قائد کے حکم پر کیا تھا۔

حیران کن بات یہ کہ پہلے عدالتی سماعت کو معطل کر دیا گیا اور پھر مقدمے کو مکمل طور پر روک دیا گیا۔ تینوں مدعا الیہان نے بغیر کسی پریشانی کے معاشرے میں دوبارہ اپنا راستہ بنا لیا۔ ان میں سے ایک کو چند سال بعد ڈاکٹرز چیمبرز کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ ان کے متاثرین تاہم اپنی زندگیوں کے اختتام تک 'ناپسندیدہ‘ بنے رہے۔ جوزف کائزر، جو اب اس دنیا میں نہیں رہا، کے بقول،''میری جوانی کبھی آئی ہی نہیں تھی اور اس آپریشن کے بعد میرا کوئی مستقبل بھی نہیں تھا۔‘‘

ناؤمن اشٹیفن/ ک م/ ع س