ڈسکہ ضمنی انتخاب،پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا، سپریم کورٹ

اگر پولیس الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی تھی تو فوج طلب کیوں نہیں کی گئی، 7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 فروری کو ہوا، جسٹس عمر عطاء بندیال

جمعرات 1 اپریل 2021 23:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 اپریل2021ء) سپریم کورٹ میں ڈسکہ ضمنی انتخاب کیس میں جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر پولیس الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی تھی تو فوج طلب کیوں نہیں کی گئی، پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا، انتخابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی 7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 فروری کو ہوا، کیا صرف خط لکھنے سے سیکیورٹی اقدامات ہوتے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی کے امیدوار کی درخواست پر سماعت کی۔مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتحار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے ان کی خیریت دریافت کی اور کہا کہ امید کرتے ہیں آپ مختصر دلائل دیں گے۔

(جاری ہے)

وکیل مسلم لیگ (ن) نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی انکوائری کے بغیر فیصلہ دینے کی بات درست نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے اس سلسلے میں تمام متعلقہ حکام سے رابطہ کیا تھا۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دیہی علاقوں میں ٹرن آؤٹ 52 فیصد رہا، شہری علاقوں میں فائرنگ کے باعث ٹرن آؤٹ 35 فیصد سے کم تھا، الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں منصوبے بنا کر رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کسی منصوبے کی بات نہیں کی، پریزائیڈنگ افسران کا موبائل ریکارڈ الیکشن کمیشن کے پاس نہیں تھا، سپریم کورٹ اپیل میں موبائل ریکارڈ یا ڈیٹا کا کس طرح جائزہ لیا جا سکتا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسران پولیس اسکوڈ کے ساتھ لاپتہ ہوئے، وحیدہ شاہ کیس کا پیرا نمبر 15 پڑھیں، اسے پڑھ کے آپ کو معلوم ہوگا کہ الیکشن اسٹاف کا کنڈکٹ کتنا اہم ہوتا ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایسی صورتحال میں الیکشن ٹریبونل کے لیے تحقیقات کا معیار الیکشن کمیشن سے مختلف ہوگا، ای سی پی ایک آئینی ادارہ ہے جس نے اپنی تحقیقات کیں، الیکشن کمیشن نے جو حکم جاری کیا وہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے استعمال ہوگا۔انہوںنے کہاکہ الیکشن کمیشن کو یہ تاثر ملا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئی. انتظامیہ کے عدم تعاون کی وجہ سے فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو ان دو وجوہات کی بنیاد پر مؤثر قرار دیا جائے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ پولیس افسر عمر ورک کے زیر کنٹرول علاقے میں کتنے پریزائیڈنگ افسر تھی جس پر سلمان اکرام راجا نے کہا کہ اس علاقے میں لاپتا ہونے والے پریزائیڈنگ افسران کی تعداد 8 ہے۔انہوںنے کہاکہ کل 23 جمع 76 جمع 8 پولنگ اسٹیشنز پر حالات خراب ہوئے، یہ اتنی بڑی تعداد ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے پورے حلقے میں پولنگ کروانے کا فیصلہ کیا، الیکشن کمیشن کا فیصلہ حقائق اور قانون کے مطابق ہے۔

ایک موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے مسلم لیگ (ن) کے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے وہ چند پولنگ اسٹیشنز سے متعلق ہے، ڈسکہ میں دوبارہ پولنگ کا حکم پورے حلقے کے لیے دیا گیا۔انہوں نے سلمان اکرم راجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصلے پڑھ رہے ہیں تاہم اصل نقطے کی طرف نہیں آ رہے، گزشتہ ہفتے بھی آپ دلائل مکمل نہیں کر سکے تھے، آپ کے دلائل مکمل کرنے میں ناکامی کے باعث طوفان برپا ہوا تھا آدھے گھنٹئے میں دلائل مکمل کریں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سول انتظامیہ نے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا، انتظامیہ کے عدم تعاون کا فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا، ڈسکہ میں پریزائیڈنگ افسران کو ہی اغوا کر لیا گیا ان کا غائب ہونا سنگین بات ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ اپنے دلائل کو 20 پریزائیڈنگ افسران تک محدود رکھیں۔وکیل مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ الیکشن کمیشن متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیتا وہ بھی مناسب تھا، پورا حلقہ نہ بھی سہی تو 109 متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے لیکن اولین استدعا ہے کہ پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کا حکم برقرار رکھا جائے۔

سلمان اکرم راجا کے دلائل کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل میاں عبدالرؤف نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔وکیل ای سی پی نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسر پر لازم ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی فراہم کردہ گاڑی میں ہی انتخابی مواد کی ترسیل کریں لیکن پولنگ کے فوراً بعد مذکورہ پولنگ اسٹاف حلقے کی حدود سے ہی باہر چلا گیا۔وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو مہیا اطلاعات کے مطابق پولنگ اسٹاف سیالکوٹ چلا گیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے کے بعد لوکیشن کیوں منگوائی پریزائیڈنگ افسران کی لوکیشن کی قانونی حثیت نہیں جس مواد پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا صرف وہ پیش کرنا ضروری ہے، فیصلہ کرتے وقت الیکشن کمیشن کو معلوم ہی نہیں تھا معاملہ کیا ہی وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقے سے باہر جاکر پریزائیڈنگ افسران اور پولیس کے موبائل بند ہو گئے تھے، پی ٹی آئی نے اپیل میں بیامنی ہونے کا بھی اعتراف کیا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس ڈرائیور، پریزائیڈنگ افسر اور پولیس افسر کے رابطہ نمبر ہوتے ہیں، کیا تینوں کے نمبروں پر رابطہ نہیں ہوا تھا وکیل نے بتایا کہ جی تینوں نمبر اس وقت بند جا رہے تھے، جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ یہ نکتہ بہت اہم ہے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو یہ تاثر ملا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوئے، عدالت الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھے پولنگ اسٹیشن میں سے 76پولنگ اسٹیشن ڈسکہ شہر کے ہیں، 13 پولنگ اسٹیشن وہ ہیں جہاں ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انتخابی عمل ملتوی کر کے پولیس کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی 7 فروری سے پولیس تعاون نہیں کررہی تھی الیکشن 19 فروری کو ہوا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر پولیس الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کر رہی تھی تو فوج طلب کیوں نہیں کی گئی، پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا، پولیس تعاون نہیں کررہی تھی تو متبادل انتظام کیوں نہیں کیا، کیا صرف خط لکھنے سے سیکورٹی اقدامات ہوتے ہیں.انہوں نے کہا کہ پولیس کے پاس مجمع منتشر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں، حکومتی اداروں کی نااہلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن منظم دھاندلی کو شواہد سے ثابت کرے، شواہد نہیں تو قانون کی وسیع خلاف ورزی دیکھی جائے۔انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے اکرم راجا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطابق 360 میں سے 340 پولنگ اسٹیشنز پر نوشین افتخار جیت رہی تھیں، دیکھنا ہے کہ کیا پریزائیڈنگ افسران کے لاپتہ ہونے سے نتیجہ متاثر ہوا۔سماعت میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد سماعت جمعہ تک کیلئے ملتوی کردی۔