قومی و بین الاقوامی سطح پر آموں کی نمائش اور مارکیٹنگ کے ذریعے اس کی پیداوار اور برآمدات میں دوگنا اضافہ کرکے کثیرزرمبادلہ کمانے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے

جبکہ مقامی طور پرآموں کی ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کر کسان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے سے نئی نسل کو پیشہ کاشتکاری سے جوڑے رکھنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوگی

پیر 12 جولائی 2021 13:31

قومی و بین الاقوامی سطح پر آموں کی نمائش اور مارکیٹنگ کے ذریعے اس کی ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 جولائی2021ء) قومی و بین الاقوامی سطح پر آموں کی نمائش اور مارکیٹنگ کے ذریعے اس کی پیداوار اور برآمدات میں دوگنا اضافہ کرکے کثیرزرمبادلہ کمانے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے جبکہ مقامی طور پرآموں کی ویلیو ایڈیشن کو فروغ دے کر کسان کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ کرنے سے نئی نسل کو پیشہ کاشتکاری سے جوڑے رکھنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوگی۔

یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر انس سرور قریشی نے چک نمبر116ج ب رڑاٹالی میں اصغرمینگو فارم پر ایگری ٹورازم کارپوریشن کے اشتراک سے منعقدہ مینگو فیسٹیول کے مہمان خصوصی کے طور پر خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ حکومت پنجاب ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی‘ ڈاکٹر خالد محمود شوق‘ ایگری ٹورازم کارپوریشن کے روح رواں طارق تنویر‘ میاں نوید الرحمن‘ میاں عتیق‘ پرنسپل آفیسراسٹیٹ مینجمنٹ ڈاکٹر جاوید اختر‘ پرنسپل آفیسرتعلقات عامہ ڈاکٹر جلال عارف‘ ٹریژرعمر سعید قادری‘ڈاکٹر محمد یاسین‘ ڈاکٹر چوہدری محمد ایوب‘ ڈاکٹر محمود رندھاوا‘ یاسین رندھاوا اور سیکرٹری ٹو وائس چانسلرمسٹر محمد جمیل کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر انس سرور قریشی نے کہا کہ دنیا کے ہر خطے میں پاکستانی آموں سے محبت کرنے والے موجود ہیں لیکن بین الاقوامی سطح پر اس کی برآمدمیں بڑی رکاوٹ کوالٹی کے وہ پیمانے ہیں جن کے نہ ہونے سے پاکستان ایک بڑے زرمبادلہ سے محروم رہتا ہے لہٰذا حکومتی اداروں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس حوالے سے کسانوں کیلئے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کریں تاکہ فارم کی سطح پر ہی ان تمام پروٹوکولز پر عملدرآمد یقینی بناکر اس کی برآمدات میں اضافہ کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ برصغیر کی ثقافت میں آموں کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ غالب سے لیکر علامہ اقبال تک یہ پھل ہر کسی کا محبوب اور مرغوب رہا ہے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ آم کی ویلیو ایڈیشن کرکے اسے صارفین تک پورا سال حقیقی ڈائقے‘ خوشبو اور مٹھاس کیساتھ پہنچاکراس سے وابستہ کاروبار کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہرچندامسال پاکستان نے آموں کی برآمد کا ٹارگٹ آسانی سے پورا کر لیا ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں پسند کی جانیوالی ورائٹیوں کے نئے باغات سائنسی بنیادوں پر بھی لگائے جائیں تاکہ فی ایکڑ پودوں میں اضافہ کی ٹیکنالوجی کے ذریعے فی پوداپیداوار بڑھا کر کسان کی معاشی حالت می بہتری لائی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی وفاقی و صوبائی حکومتوں کے اشتراک سے آم‘ کینو‘ امرود سمیت سبزیوں و پھلوں کی محفوظ ذخیرہ کاری کیساتھ ساتھ ویلیو ایڈیشن پر درجنوں کورسزکرواتا ہے جن کے ذریعے سینکڑوں نوجوان تربیت حاصل کرکے ملازمتیں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے چھوٹے کاروبارشروع کرکے باعزت روزگار کما رہے ہیں۔

ڈائریکٹر جنرل ریسرچ پنجاب ڈاکٹر ظفر اقبال قریشی نے بتایا کہ ان کا ادارہ رحیم یار خان میں بھی مینگو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم کر رہا ہے جس سے آم کے کاشتکاروں کو پیداوار بڑھانے اور عالمی معیار کے مطابق کوالٹی پراڈکٹس کی تیاری میں مدد و رہنمائی میسر آئے گی۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان آم پیداکرنیوالے بڑے ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے جبکہ یورپ‘ امریکہ سمیت ترقی یافتہ ممالک میں درآمد ہونیوالا40فیصد آم بھارت سے آتا ہے لہٰذا ہمیں بھی ان ممالک میں اپنے آموں کی نمائش اور مارکیٹنگ کے ذریعے نئی منڈیاں تلاش کرنے پر توانائیاں صرف کرنا ہونگی۔

ایگری ٹورازم کارپوریشن کے روح رواں مسٹر طارق تنویر نے کہا کہ ہمیں کسان کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ فارم کی سطح پر اس کی تربیت بھی کرنا ہوگی تاکہ وہ ویلیو ایڈیشن اور محفوظ ذخیرہ کاری کے ذریعے اپنے پیدوار کا معقول منافع حاصل کرنے کی سائنس سے جانکاری حاصل کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج کسان کا بیٹا کسان بننا پسند نہیں کرتا لیکن حکومت کوان پہلوؤں پر غور کرتے ہوئے کاشتکاری کو ایک پرکشش پیشہ بنانے کیلئے توانائیاں صرف کرنا ہونگی تاکہ نئی نسل سائنسی طریقوں سے کاشتکاری کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

ڈاکٹر خالد محمود شوق نے کہا کہ انہیں یونیورسٹی کی ایڈوائزری اور تکنیکی مدد کی ضرورت رہتی ہے اور وہ چاہیں گے کہ یونیورسٹی کے اشتراک سے وہ مستقبل میں زراعت سے وابستہ تہواروں کو بھرپور طریقے سے منانے کا اہتمام کریں تاکہ 22کروڑ لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے والے کسان کی عزت افزائی کے ساتھ ساتھ اس کی پیداوار اور آمدن بڑھانے کیلئے کردار ادا کیا جا سکے۔

چوہدری یاسین رندھاوا نے اپنے خطاب میں آم کی ویلیو ایڈیشن پر سیرحاصل گفتگو کرتے ہوئے اس کے پتوں سے چائے‘ قہوہ‘ گھٹلی سے تیل‘ چھلکوں سے سکرب‘ اچار‘ جیم وغیرہ کی تیاری پر زور دیا۔تقریب کے میزبان میاں عتیق الرحمن نے بتایا کہ ان کے پاس 40سے زائد ورائٹیوں کے آ م موجود ہیں جو اپنے ذائقے‘ خوشبو اور پسندیدگی میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔