قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق میں پی ٹی ایم کے متاثرین اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے مبینہ قاتل ایم پی ایز کے خلاف الگ الگ متاثرہ شہری پہنچ گئے ،الزامات کی بوچھاڑ

محسن داوڑ اور تحریک انصاف کے ایم این اے کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ کچے کے ڈاکوئوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے، ایک جانب جدید اسلحہ سے لیس فورس دی جاتی ہے اور ہمیں سالوں پرانے ہتھیاروں سے لڑنے کا کہا جا تا ہے ، مندر بے حرمتی پر ڈی آئی جی نے سارا ملبہ حکومت پر ڈال دیا ڈی پی او رحیم یار خان کے اجلاس میں نہ آنے پر کمیٹی کا برہمی کا اظہار

جمعرات 12 اگست 2021 21:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اگست2021ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں پی ٹی ایم کے متاثرین اور سندھ میں پیپلز پارٹی کے مبینہ قاتل ایم پی ایز کے خلاف الگ الگ متاثرہ شہری پہنچ گئے ،الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی ،محسن داوڑ اور پاکستان تحریک انصاف کے ایم این اے کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ،محسن داوڑ نے کہا کہ سینکڑوں افراد معذور اور انکو پوچھنے والا کوئی نہیں ،جبکہ جواب میں رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ قبرستانوں میں شہدا کی قبروں پر نظر ڈالی جائے ،دوسری جانب مندر بے حرمتی پر پولیس کے ڈی آئی جی نے سارا ملبہ حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ کچے کے ڈاکوئوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ،ہمارے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ایک جانب جدید اسلحہ سے لیس فورس دی جاتی ہے اور ہمیں سالوں پرانے ہتھیاروں سے لڑنے کا کہا جا تا ہے ،کمیٹی چیئرپرسن شازیہ مری نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر اگر عمل کیا جاتا تو ایسے حالات نہ ہوتے ،کچے پکے کا فرق ختم ہو سکتا ہے ،وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ سوال کا جواب دیا جائے ،اپنی ناکامی چھپانے کے لیے ادھر ادھر کی باتیں نہ کی جائیں،ڈی پی او رحیم یار خان کے اجلاس میں نہ آنے پر کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا،ہوم سیکرٹری پنجاب نے کمیٹی کو بتایا کہ مندر حملہ میںتمام ملوث افراد کو کٹہرے میں لایا جائے گا،60سے زائد گرفتار کر لیے ہیں،مختلف مکاتب فکر پر امن کمیٹی بنا دی ہے بہت جلد وہاں کا امن بحال اور آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی گارنٹی مل جائے گی،سندھ کی شہری خاتون نے الزام لگایا ہے کہ انکے والد،دادا،اور چچا اور بھائی کو قتل کر دیا گیا ،کرائے کے قاتل گرفتار کرلیے گئے ہیں جبکہ انکی دو ایم پی ایز گرفتار نہ کیے جا سکے ،اس لیے کہ ان کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے ،نور مقدم کیس پر حکومت نے بتایا کہ ملزم اور انکے والدین کا نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا ہے ،گزشتہ روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کی زیر صدارت ہوا جس میں رکن قومی اسمبلی سیف الرحمن،عطااللہ،لال چند،محسن داوڑ،شائستہ پرویز،آغا حسن بلوچ،زیب جعفر کے علاوہ وفاقی وزیر شیریں مزاری،ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ،ایف آئی اے ،وفاقی پولیس،پنجاب پولیس کے علاوہ دیگر حکام بھی موجود تھے،اس موقع پرسندھ سے آئی ایک لڑکی ام رباب چانڈیو کی موجودگی پر ایم این اے لال چند نے کہا کہ اس لڑکی کی روداد سنی جائے یہ انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے ،تو اس پر دیگر ارکان نے شور مچایا کہ یہ ایجنڈا میں نہیں ہے ،تو لال چند نے کہا کہ پی ٹی ایم کے لو گ جو آئے ہیں کیا ان کا ایجنڈے میں نام ہے ،تاہم کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے دونوں کو سن لیا جائے ،ام رباب چانڈیو نے کمیٹی کو بتایا میرے گھر کے چار قتل ہو چکے ہیں ،سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا تھا ،تاہم عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دو حاضر ایم پی ایز بھی شامل ہیں تو انہوںنے عبوری ضمانتیں کروا لیں اور وہ دندناتے پھر رہے ہیں،انہوںنے کہا کہ اصل ملزمان وہی ہیں اور جو گرفتار کیے گئے ہیں وہ کرایہ کے قاتل ہیں اور انہیں گرفتار بھی اس لیے کروایا گیا کہ اصل ملزمان سے توجہ ہٹ جائے ،انہوںنے مزید کہا کہ وہ انصاف کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھار ہی ہیں میرے دادا اور والد پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر ز تھے اور جب قتل ہوئے تو کسی ایک بھی رہنما نے تعزیت نہ کی،یہ دوہرا معیار ہے اور قاتلوں کی پشت پناہی اور تحفظ بھی پیپلز پارٹی دے رہی ہے ،کمیٹی چیئرپرسن شازیہ مری نے کہا کہ ہمیں اپ سے ہمدردی ہے اور اگر ایسا ہے تو ہم مذمت کرتے ہیں اور ساتھ ہی آئی جی سندھ کو آن لائن لیکر بات کی تو انہوںنے بتایا کہ تمام ملزمان گرفتار ہیں اور رہا ئی پانے والے ملزمان ضمانتوں پر ہیں،دوسری جانب پی ٹی ایم کے سابق کارکن حیات اللہ نے کمیٹی کو بتایا کہ وہ ایک پڑھا لکھا انسان ہے ،ہمارے علاقہ میں ہزاروں افراد معذور اور بے گھر ہیں ،ظلم کی انتہا دیکھی تو ہم نے ایک تحریک شروع کی اور بعد میں وہی تحریک پی ٹی ایم میں تبدیل ہو گئی ،اس پر میں نے سوشل میڈیا پر مہم بھی چلائی ،اور مجھے اس گناہ کرنے پر میرے گھروالوں کو مصیبت میں ڈالا گیا،بھائی کو معذور کر دیا گیا ،میں دبئی میں نوکری کرتا تھااور اسی گزر بسر سے گھر کا نظام چلاتا تھا ،تین سال قبل جب واپس آیا تو مجھے لاپتہ کر دیا گیا اور آٹھ دن بعد آڈیالہ جیل میں ڈال کر تین ماہ کی سزا دی گئی،اب جبکہ سائبر کرائم کا جج نہ ہونے پر میرا کیس تین سال سے التوا کا شکار ہے اور میرا نام بھی ای سی ایل میں شامل ہے ،میں یقن دہانی کرائی کہ میں پی ٹی ایم چھوڑ چکا ہوں ،آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ہوں،باوجود اس کے مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ،وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ اپ سی وی دیدیں اور اگر اتنے قابل ہیں تو نوکری کا ہم بندوبست کروا دیتے ہیں،ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لیے وزارت داخلہ کو ایک درخواست دیدیں تاکہ وہ اپکے معاملہ کو غور سے دیکھے،حیات اللہ نے کہا کہ ہم اٹھارہ سالوں سے خوشیاں نہیں دیکھیں ،جو عمر پڑھنے کی ہے ہمارے بچے راشن کی لائنوں میں لگے ہوتے ہیں،،محسن داوڑ نے معاملہ کو اور رنگ دیکر قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ہی نشانہ پر لینے کی کوشش کی اورکہاکہ ہمارے علاقہ میں ہزاروںمتاثرین ہیں جو کہ معذور ہوچکے ہیں ،ان کا کوئی پرسان حال نہیں ،اس پر ایک پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی نے جواب میںکہا کہ قبرستان گواہ ہیں وہاں شہید کتنے ہیں اور اپ معذوروں کی بات کرتے ہیں ،کیا وہاں بھی ضمیر جاگا ہے ،ادھر رحیم یار خان میں مندر واقعہ پر کمیٹی نے رمیش لال کی درخواست پر معاملہ اٹھایا تو ڈی آئی جی پنجاب نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ اس پر ایس پی انوسٹی گیش تفصیل بتائیں گے ،جس ایس پی نے کہا کہ ایک دن ایک مسجدکسی چھوٹا پیشاب کیا،مولانا نے درخواست دی تو دوسرے ہی دن 26تاریخ کو ایف آئی آر درج کر لی گئی،اور پھر 27تاریخ کو انہوںنے اٹھ دس سالے ہندو لڑکے کو نامزد کر دیا ،پولیس نے انہیں گرفتار کیا تو تیسرے دن عدالت نے چھوڑ دیا،کمیٹی میں شیریں مزاری نے کہا کہ جب بارہ سال سے پہلے کسی لڑکے پر مقدمہ درج نہیں ہو سکتا تو اپ لوگوں نے کیسے کیا،رمیش لال نے کہا کہ واقعہ کے وقت اور بعد میں تین دن تک ڈی پی او نے کال تک نہ سنی اور نہ پولیس نے کوئی مدد کی ،لوگ بے یارو مدد گار ہوکر نقل مکانی کرنے لگے،اس پر کمیٹی نے استفسارکیا تو ڈی آئی جی نے کہا کہ راجن پور کچے کے علاقہ کے ایک قاری عثمان نے سوشل میڈیا پرپوسٹ وائرل کی اور ا سکے بعد انتشارپھیل گیا،کمیٹی نے استفسارکیا کہ کیا انکے خلاف کوئی کارروائی کی ہے ،تو ڈی آئی جی سکھیرا نے حکومت کو ہی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس اتنا اسلحہ موجود نہیں کہ ڈاکوئوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکیں،ایک جانب رینجر کو جدید اسلحہ سے لیس کیا جاتا اور مدد بھی ان سے مانگی جاتی ہے ،کمیٹی ارکان نے انکی بات سے اتفاق کیا،محسن داوڑ نے کہا کہ یہ ہمارے موقف کی تائید ہے اور شکر ہے کہ نڈر جواب دیا،جعفر زیب نے کہا کہ کچے پکے کا فرق ختم کیا جائے اور سب کو برابرلایا جائے ،قانون کی نظر میں سب برابر ہیں،کمیٹی چیئرپرسن نے ہوم سیکرٹری ظفر نصراللہ کو آن لائن لیکر موقف لیا تو انہوں نے بتایا کہ اس حوالہ سے کسی میں تفریق نہیں رکھی جائیگی،سب کے ساتھ قانون کے مطابق برابری کی سطع پر سلوک کیا جائے گا،اب جبکہ وزیر اعلیٰ کے حکم پر ایک امن کمیٹی بنائی گئی ہے جو کہ علاقہ کے تمام مکبت فکر کے لوگوں کی ہے اور امید کرتے ہیں کہ بہت جلد اس کا حل نکل آئے گا،کمیٹی نے اظہار اطمینان کیا اور کہاکہ انکوائری کی رپورٹ کمیٹی کو بھی فراہم کی جائیں تاکہ دیکھا جا سکے کہ فیصلہ کیا گیا ہے ،کمیٹی میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ طالبان کے ایک دہشت گرد احسان اللہ احسان نے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ میں کہا ہے کہ انکے پاس قتل کرنے کی ایک لسٹ موجود ہے جس میں افراسیاب خٹک،مفتی کفایت اللہ جو کہ ملک دشمن ہیں ان سے متعلق ہے ،احسان اللہ احسان کو قانون نافذ کرنے والے ادارے گرفتار کرتے ہیں اور پھر لاپتہ ہو کر ترکی بھی پہنچ جاتا ہے ،اور اب سوشل میڈیا پر ایکٹیو بھی ہے ،فرحت اللہ بابر نے کہا کہ احسان اللہ احسان کو ایک فوجی آفیسر نے کہا جس کا انہوںنے نام لیکر حوالہ بھی دیا ہے اور اس سلسلہ میں انہوںنے ایف آئی اے میں باقاعدہ ایک درخواست دی ہے اور اس پر کام کیا جا رہا ہے ،کمیٹی چیئرپرسن شازیہ مری نے کہا کہ ایسے رویے ناقابل برداشت ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ اپ لوگ حق و سچ کی بات کرتے ہیں ،افراسیاب خٹک نے کہا کہ ساٹھ سال سے زائد کی عمر ہو گئی باقی کی بونس ہے ،حق کی بات کرنا ہمارے خمیر میں شامل ہے اور وہ ہمیشہ کرتے رہیں گے ،موت سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی ڈرانے کی کوشش کی جائے ۔

۔ ۔۔۔ظفر ملک