Live Updates

وفاقی وزیرنیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ سید فخر امام نے کہا ہے کہ حکومت زرعی تعلیم و تحقیق کوجدید رجحانات سے ہمکنار کرنے کیساتھ ساتھ ملک کی پائیدار زرعی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے نیشنل ایگریکلچرکمیشن کا قیام عمل میں لا رہی ہے

Umer Jamshaid عمر جمشید پیر 13 ستمبر 2021 11:23

وفاقی وزیرنیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ سید فخر امام نے کہا ہے کہ حکومت ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 ستمبر2021ء) وفاقی وزیرنیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ سید فخر امام نے کہا ہے کہ حکومت زرعی تعلیم و تحقیق کوجدید رجحانات سے ہمکنار کرنے کیساتھ ساتھ ملک کی پائیدار زرعی ترقی کو یقینی بنانے کیلئے نیشنل ایگریکلچرکمیشن کا قیام عمل میں لا رہی ہے تاکہ نچلی سطح پر روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرکے دیہی معیار زندگی میں بہتری لائی جا سکے۔

زرعی تعلیم وتحقیق سے وابستہ اداروں کے کیریکولیم میں ضروری تبدیلیاں لاکر ایسی ہنرمند اور باصلاحیت افرادی قوت میدان عمل میں اتاری جائے گی جوصحیح معنوں میں زراعت کو ایک منافع بخش اور پرکشش پیشہ بنانے کیلئے حکومتی اقدامات میں معاون ثابت ہو۔موجودہ حکومت کی کاوشوں اور اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی سے پانچ میجر کراپس میں سے 3کراپس میں ریکارڈ پیداوار حاصل کی ہے گندم میں 27.5ملین ٹن‘ چاول اور مکئی ہر ایک میں 8.4ملین ٹن جبکہ گنے کی 81ملین ٹن ریکارڈ پیداوار حاصل ہوئی ہے جس سے اربوں روپے دیہی معیشت میں شامل ہوئے۔

(جاری ہے)

یہ باتیں وفاقی وزیرنیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ سید فخر امام نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں (ستارہئ امتیاز) کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرچند کپاس کا ایریا کم ہونے اور دوسری وجوہات کی وجہ سے پیداوار میں گزشتہ چند برسوں سے کمی کا سامنا ہے تاہم وہ پرامید ہیں کہ حکومت کی طرف سے کپاس کی 5ہزار روپے فی من سپورٹ پرائس کی منظوری سے نہ صرف امسال کپاس کی 8.5ملین گانٹھوں کی پیداوار ہدف کے مطابق ہوگی بلکہ آمدہ سالوں کے دوران زیادہ رقبے پر کپاس کی کاشت سے مجموعی پیداوار میں یقینی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں میں گندم کی کاشت شروع ہوجائیگی اور وہ وقع رکھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے زیادہ سے زیادہ سرٹیفائیڈ اور رسٹ فری ورائٹیوں کے بیج کی فراہمی سے گندم کی پیداوار اور کوالٹی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میجر کراپس کی پیداوار میں اضافے کا ہدف حاصل کرنے کے بعد ہائی ویلیو کراپس کی طرف جائیگی جس کے ذریعے کاشتکار کی فی ایکڑ آمدنی بڑھائی جا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ لائیوسیکٹر زرعی جی ڈی پی میں 60 فیصد کے لگ بھگ کا حصہ دار ہے لہٰذا حکومت کی کوشش ہوگی کہ اس کی بریڈنگ‘ فیڈنگ‘ نیوٹریشن اور صحت میں بہتری لاکر گوشت اور دودھ کی پیداوار میں اضافہ ممکن بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ و ہ زرعی تعلیم و تحقیق سے وابستہ اداروں کے کیریکولم کو عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کوشاں ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اس طرح ملک کو باصلاحیت افرادی قوت میسر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ 1978ء چین ہمارے مقابلے میں ایک غربت ملک تھا لیکن ان کی زیرک اور باصلاحیت قیادت نے سینکڑوں چینی نوجوانوں کو امریکی جامعات سے سائنس و ٹیکنالوجی کی اعلیٰ تعلیم دلوائی جس سے ان کی ترقی کو مضبوط بنیاد فراہم ہوئی لہٰذا آج چین نئی اقتصادی طاقت بن چکا ہے یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت چین کی زرعی ترقی کے ثمرات کو پاکستان تک لانے کی آرزومند ہے اور چھوٹے کاشتکار کیلئے چین میں زرعی تحقیق کے مختلف اداروں کے ساتھ تعاون کو بڑھایا جا رہا ہے تاکہ میکانائزیشن‘ ویلیو ایڈیشن اور مارکیٹنگ میں موجود کمزوریوں کو دور کرکے زراعت کے ذریعے ملکی معیشت کو اوپر اُٹھایا جا سکے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف اے او اور چین کے مختلف اداروں سے کہا گیا ہے کہ پاکستان میں زرعی تحقیق کے مختلف اداروں کو کوالٹی کے عالمی معیار پر پرکھا جائے تاکہ ان کی نشاندہی کی روشنی میں بہتری لائی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے کامیاب جوان پروگرام میں دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو بھی بغیرکسی گارنٹی یا کولیٹرل کے سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی کراپ بلاسود قرضے فراہم کئے جا رہے ہیں جس سے انہیں کاشتکار ی کیلئے وسائل میسر آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہرسال 3ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے لہٰذا حکومت کی کوشش ہوگی کہ تیل دار اجناس سمیت زیتون کی کاشت کو رواج دے کر امپورٹ بل میں خاطر خواہ کمی لائی جائے۔انہوں نے بتایا کہ امسال پاکستان سے فروٹس و ویجی ٹیبل کی برآمدات سات سو ملین ڈالر سے بڑھ کر 800ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہیں اور گزشتہ سال آم کی 1.10ملین ٹن کے مقابلہ میں امسال 1.42ملین ٹن برآمدات کے ساتھ ساتھ ترشاوہ پھلوں کی برآمدات بھی ساڑھے تین لاکھ ٹن سے 4لاکھ باسٹھ ہزار ٹن ہوگئی ہیں جس میں پہلے سے موجود کوڈ آف پریکٹس پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے مزید اضافہ کیلئے کوشاں ہیں۔

بعد ازاں سنڈیکیٹ روم میں یونیورسٹی کے ڈینز و ڈائریکٹرز سے ملاقات میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ کپاس 60فیصد ملکی برآمدات میں حصہ دار ہے لہٰذا اس کی پیداوار اور کوالٹی میں بہتری لاکر ملکی انڈسٹری کیلئے خام مام اور برآمدات میں اضافہ کے ذریعے کثیرزرمبادلہ کمانے کی راہ ہموار کی جا ئے گی۔انہوں نے کہا کہ طویل العمر پودا ہونے کی وجہ سے کپاس پر کیڑوں کا حملہ زیادہ ہوتا ہے لہٰذا وہ چاہیں گے کہ اگر سائنس دان مختصر دورانیہ اور مشین پکنگ کیساتھ زیادہ پیداوار کی حامل ورائٹی متعارف کروادیں تو اس سے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جلد ہی پاکستان انجینئرنگ کونسل کی طرز پر پاکستان ایگریکلچرل ایکریڈیٹیشن کونسل کا ایکٹ پارلیمنٹ سے منظور کروا کر کونسل قائم کی جائیگی جس کے ذریعے جامعات میں زرعی تعلیم و تحقیق کوجدید رجحانات سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں معیار کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں 600سے زائد سیڈ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جن میں کوالٹی کنٹرول اور معیار کی جانچ کاری کا کوئی مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال کسانوں کی اربوں روپے ناقص بیج کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔

قبل ازیں یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں (ستارہئ امتیاز) نے یونیورسٹی کی عمومی تعلیمی و تحقیق سرگرمیوں اور عالمی درجہ بندی کااحاطہ کرتے ہوئے بتایا کہ زرعی یونیورسٹی ملک کی واحد دانش گا ہ ہے جسے کیو ایس ورلڈیونیورسٹی رینکنگ میں کسی بھی سبجکیٹ کیٹیگری میں دنیا کی 100بہترین جامعات میں شمولیت کا امتیازی اعزاز حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی مینجمنٹ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور وفاقی وزیرنیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ سید فخرامام کے یونیورسٹی کے حوالے سے سوالات اور تحفظات کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور سنڈیکیٹ کے آمدہ اجلاس میں منظوری کے بعد ملکی ترقی میں یونیورسٹی کے تعمیری کردار پر نہ صرف سیرحاصل اور مفصل رپورٹ جاری کرے گی بلکہ مستقبل کیلئے اپنے کیریکولم میں جدتیں متعارف کروا کرایسی افرادی قوت مارکیٹ میں لائی جائیگی جس کا اوڑھنا بچھونا ہی زراعت اور اس کی ترقی ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت زرعی زمینوں کیساتھ ساتھ انسانی آبادی کو زنک اور فولاد کی کمی کا سامنا ہے لہٰذا اس میں بہتری کیلئے ون ہیلتھ کے جھنڈے تلے مربوط کاوشیں بروئے کار لائی جانی چاہئیں۔انہوں نے بتایا کہ بھارت میں چندی گڑھ اور ہریانہ میں موجود زرعی جامعات میں طلبہ کی فی کس تعداد 40ہزار سے زائد ہے لیکن اس کے مقابلہ میں لدھیانہ یونیورسٹی میں ڈیڑھ ہزار اساتذہ کیساتھ طلبہ کی مجموعی تعداد 2ہزار طلبہ تک محدود ہے جس کی وجہ سے وہ بھارت کی زرعی ترقی کو یقینی بنائے ہوئے ہے۔

انہوں نے وفاقی وزیر کی توجہ دوسری پروفیشنل جامعات کی جانب دلاتے ہوئے کہا کہ ان جامعات کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کیساتھ ساتھ متعلقہ وزارتوں سے بھی خاطر خواہ فنڈنگ فراہم کی جا تی ہے جبکہ زرعی یونیورسٹی کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے فراہم کی جانیوالی فنڈنگ طلبہ کی انرول منٹ کے فارمولہ سے منسلک ہے لہٰذا وہ چاہیں گے کہ وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی و ریسرچ ملک کی زرعی جامعات کو نسٹ کی طرز پر اپنے زیرنگرانی لے آئے تو اس کی فنڈنگ کے جملہ مسائل بہترانداز میں حل ہوسکیں گے جس سے کوالٹی ایجوکیشن اور تحقیق کا ہدف کامیابی سے حاصل ہوپائے گا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے 2017ء میں 10ہزار پاکستانیوں کو امریکی جامعات میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجنے کی منظوری دی گئی جس کے تحت ہر سال ایک ہزار طلبہ کو امریکہ بھیجا جانا تھا لیکن گزشتہ مالی سال کے دوران اس کا پی سی ون تبدیل کرکے منصوبے کو مجموعی طو رپرایک ہزار طلبہ تک محدود کر دیاگیاجس کے بعد عملی طو رپر یہ پروگرام آگے نہیں بڑھ رہا۔

انہوں نے کہا کہ سال 2018ء میں پنجاب ایگریکلچرل مارکیٹنگ ریگولیٹری ایکٹ کی منظوری کے بعد اس کے قوانین کی تیاری سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں کاشتکار کا استحصال جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انٹرمیڈیٹ پری ایگریکلچرپروگرام کاازسرنو اجراء کا ارادہ رکھتی ہے جس کا مقصدشعبہ زراعت کو پرخلوص اور مکمل ذمہ داری لینے والی افرادی قوت میسر ہوگی۔

بریفنگ میں پرو وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر انس سرور قریشی‘ ڈائریکٹرجنرل نب جی ڈاکٹر شاہد منصور‘ نایاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق محمود اور ترقی پسند کاشکار محترمہ ثروت ملک کے ساتھ ساتھ ڈینز و ڈائریکٹرز بھی شریک تھے۔ ڈین کلیہ زراعت پروفیسرڈاکٹر جاوید اختر‘ ڈین انجینئرنگ ڈاکٹر ارشاد‘ ڈین سائنسز ڈاکٹر اصغر باجوہ‘ ڈین فوڈ نیوٹریشن و ہوم سائنس ڈاکٹر مسعود صادق بٹ اور ڈاکٹر خالد محمود چوہدری نے اپنے زیرنگرانی جاری تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں پر بریفنگ دی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات