روس اور یوکرین جنگ پر امریکی ردعمل سے دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ

امریکی سینیٹ کی جانب سے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو جنگی مجرم قراردینے کی قرارداد منظور‘ماسکو کی جانب سے شدید ردعمل

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 16 مارچ 2022 13:53

روس اور یوکرین جنگ پر امریکی ردعمل سے دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی ..
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 16 مارچ ۔2022 ) روس اور یوکرین جنگ پر امریکا کی جانب ردعمل سے دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے امریکی سینیٹ نے گزشتہ روز متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو جنگی مجرم قرار دیا گیا جبکہ ماسکو نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت خارجہ کی جانب سے اس پر جلد جواب دیا جائے گا.

(جاری ہے)

امریکی کانگریس اگرچہ سیاسی طور پر منتقسم ہے مگر اس قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے قرارداد اس ماہ کے شروع میں ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کی طرف سے پیش کی گئی تھی جوکہ اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیںوہ جنگ کے آغازکے دنوں میں یہ بیانات بھی دے چکے ہیں روس میں کوئی شخص اٹھے اور صدر پوٹن کو قتل کردے امریکی سینیٹرکے اس غیرذمہ درانہ بیان پر ان کے ساتھی اراکین کانگریس کے علاوہ عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی.

امریکی کانگریس کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان صدر پوٹن کے ایما پر ان کے ملٹری کمانڈرز اور روسی مسلح افواج کی طرف سے مسلسل جاری تشدد، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتا ہے. قرارداد میں عالمی فوجداری عدالت اور ملکوں سے کہا گیا ہے کہ روس کے حملے کے دوران ہونے والے جنگی جرائم کی کسی بھی تحقیقات میں روسی فوج کو نشانہ بنائیں امریکی نشریاتی ادارے نے وائٹ ہاﺅس کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر جو بائیڈن کل یوکرین کے لیے اضافی 800 ملین ڈالر کی نئی سیکیورٹی امداد کا اعلان کریں گے وائٹ ہاﺅس کے حکام کے مطابق اس اضافی امداد کے ساتھ ہی گزشتہ ہفتے میں یوکرین کے لیے امریکہ کی اعلان کردہ امام کی مجموعی رقم دو ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی.

یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا جائے گا جب بدھ کو یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں ادھر ایک وائٹ ہاﺅس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن 24 مارچ کو برسلز میں روس کے یوکرین پر حملے کے ایک ماہ بعد ہونے والے”غیرمعمولی“ نیٹو سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے. وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکرٹری جین ساکی کی طرف سے صدر بائیڈن کے سفری منصوبے کا اعلان کیا گیا یہ اعلان نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ کی جانب سے نیٹو اجلاس بلائے جانے کے اعلان کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے.

نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ اتحاد کے اراکین روس کے یوکرین پر حملے، یوکرین کے لیے ہماری مضبوط حمایت اور نیٹو کی ڈیٹرنس اور دفاع کو مزید مضبوط بنانے پر بات چیت کریں گے ادھر گزشتہ روز بائیڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ یوکرین کے خلاف پوٹن کی جارحیت نے امریکہ کے تمام لوگوں کو متحد کر دیا ہے ادھر روس کی وزارت خارجہ نے 13 امریکی شہریوں پر انفرادی پابندیوں کا اعلان کیا ہے جن میں صدر جو بائیڈن ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن، وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن، وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، وائٹ ہاﺅس کی ترجمان جین ساکی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی، اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن شامل ہیں.

ایک بیان میں روسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام امریکہ کی موجودہ انتظامیہ کی جانب سے روس کو ہدف بنانے کی انتہائی خواہش کے جواب میں لیا گیا ہے، جو روس کو دھمکانے اور امریکی تسلط برقرار رکھنے کی مایوس کن کوشش کا ایک حصہ ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ فہرست میں دیے گئے امریکی شہری 15 مارچ کے بعد روس کا سفر نہیں کر سکیں گے روسی حکام نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اس فہرست کو وسیع کیا جا سکتا ہے، جس میں قانون ساز، ماہرین، کاروباری افراد اور میڈیا کے افراد شامل ہوں گے.

ترجمان وائٹ ہاﺅس جین ساکی نے روس کے بیان پر کہا کہ ہم میں سے کوئی بھی روس کی سیاحت کا ارادہ نہیں رکھتا اور نہ ہی ہمارے ایسے بینک اکاﺅنٹس ہیں جن تک ہماری رسائی نہیں ہوگی. ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک طرف امریکا ”ہیگ عدالت“کو نہیں مانتا تو وہ کس حیثیت میں اپنا مقدمہ لے کر عالمی عدالت میں جائے گا ؟ ایڈیٹر”اردوپوائنٹ “میاں محمد ندیم نے کہا کہ امریکا کے خلاف ہیگ میں افغانستان ‘عراق ‘لیبیا سمیت کئی ممالک میں جنگی جرائم کے حوالے سے انکوائریاں زیرالتوا ہیں چونکہ امریکا کا موقف رہا ہے کہ وہ ہیگ کی عدالت کو نہیں مانتا اور نہ ہی اس نے عدالت کو تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط کررکھے ہیں یہاں تک کہ صدر ٹرمپ کے دور میں افغانستان میں امریکی جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے والے ہیگ عدالت کے اعلی عہدیداروں کے امریکا میں داخلے پر پابندیاں تک عائد کی گئی تھیں .

انہوں نے کہا کہ صرف امریکا کانگریس کا ایک قرارداد پاس کردینا ایک سیاسی چال تو ہوسکتی ہے مگر عالمی سطح پر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے میاں محمد ندیم کے نزدیک اس قرارداد کے بعد ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور امریکی اقدامات دونوں بڑی طاقتوں کے درمیان ٹکراﺅ کا باعث بن سکتے ہیں . انہوں نے کہا کہ یہ ممکن ہے کہ روس اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جائے اور وہاں امریکا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ چین ماسکو کی حمایت کرئے گا سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران میںامریکا‘چین‘روس ‘ فرانس اوربرطانیہ شامل ہیں روس اور چین ایک طرف ہیں جبکہ امریکا دوسری طرف کھڑا ہے جبکہ اس کے اتحادی فرانس اور برطانیہ کے بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ سلامتی کونسل میں معاملہ آنے کی صورت میں وہ غیرجانبدار رہیں اس طرح امریکا اکیلا رہ جائے گا جبکہ روس کو چین کی وجہ سے برتری حاصل ہوگی.

انہوں نے کہا کہ اگر یہ فرض کربھی لیا جائے کہ امریکا سینیٹ کی قراردادکوہیگ عدالت میں لے کر جائے گا تو اس کے جواب میں اسے خود بھی افغانستان‘عراق‘لیبیا سمیت کئی معاملات میں ناصرف جواب دہ ہونا پڑے گا بلکہ زیرالتوا انکوائریوں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا ان کے نزدیک یہ محض ایک سیاسی چال ہے جو امریکا نے ماسکو پر دباﺅ بڑھانے کے لیے چلی ہے مگر اس کے جواب میں روس اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جاسکتا ہے جس سے واشنگٹن کی مشکلات میں اضافہ ہوگا.