پاکستان، دہشت گردانہ حملوں میں تیزی

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 21 اپریل 2022 20:00

پاکستان، دہشت گردانہ حملوں میں تیزی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2022ء) سال رواں کے پہلے تین ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے پچھتر واقعات میں ایک سو نواسی افراد ہلاک جب کہ ڈھائی سو زخمی ہوئے ۔ دہشت گردی کے واقعات میں پشاور میں سب سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے جبکہ دوسرے نمبر پر شمالی وزیرستان میں چالیس افراد مارے گئے ۔

داعش کے جنگجو پاکستان میں پھیل رہے ہیں

پشاور مسجد حملے میں ہلاکتیں پچاس سے زائد، دو سو کے قریب زخمی

تحقیقاتی ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے تین ماہ کے مقابلے میں سال رواں کے تین ماہ میں دہشت گردی کے واقعات میں ایک سو تہتر فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

ضم قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں میں اضافہ ہوا ہے۔

(جاری ہے)

بتایا گیا ہے کہ اس دوران پولیس، فوج اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے اہلکاروں سمیت نیم فوجی دستوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

اعداد و شمار کے مطابق ان تین مہینوں کے دوران تیرسٹھ مشتبہ دہشت گردوں کو مقابلے مارا گیا۔

سی آر ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق ان دھماکوں میں چند حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔

سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی اسٹڈیز سے وابستہ شمس مومند نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، '' دیکھا جائے تو خیبر پختونخوا میں اگست کے مہینے(طالبان کے کابل پر قبضے) سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن سال رواں کے دوران افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اس میں مزید تیزی آئی۔

رواں ہفتے کے دوران شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز پر مسلسل حملے ہوئے، جن میں متعدد اہلکار ہلاک ہوئے۔

اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے مابین اہم تجارتی راستہ انگور اڈہ آٹھ دن کے لیے بند رہا۔ ان واقعات کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا، '' دس سال سے سیکورٹی فورسز ملک بھر میں ٹارگٹڈ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی اگر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ سیکورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

‘‘

افغانستان کے ساتھ تعلقات

اگست میں افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال رہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی کے ساتھ دونوں ممالک کے مابین معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ الزام تراشی اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضا بدستور جاری رہی۔

معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم تجارتی گذرگاہیں طورخم ،غلام خان، انگور اڈہ، خرلاچی اور دیگر آئے روز ا‌ختلافات کی وجہ سے بند کر دی جاتی ہیں۔گزشتہ روز انگور اڈہ اور اس سے قبل غلام خان سرحد کو ایک ہفتے کی بندش کے بعد پیدل آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سرحدوں کی بندش کی وجہ سے دونوں ممالک کے شہریوں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاک افغان جائینٹ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ضیا الحق سرحدی نے اس سلسلے میں ڈی ڈبلیوکو بتایا، '' تجارت اپنی جگہ ہے لیکن ہمیں اپنی سرزمین کی حفاظت توکرنی ہے یہی ترجیحات ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے سیمنٹ، سریا، اشیاء خورونوش اور افغانستان سے تازہ پھل اور سبزیاں آ رہی ہیں۔ اسی طرح کراچی اور لاہور سے تجارتی سامان افغانستان کے لیے آ رہا ہے لیکن سیکورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان کو یہ سرحدیں کبھی کبھی بند کرنی پڑتی ہیں۔

جس کے یقیناﹰ ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج دونوں ممالک کے مابین تجارت ڈھائی ارب ڈالر سے کم ہوکر چندکروڑ ڈالر رہ چکی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ اور عمائدین سے ملاقات

وزیر اعظم شہباز شریف کے دورے کے دوران انہوں قبائلی عمائدین سے ملاقات کی اور ان کے مسائل سنے۔ اس دوران کور کمانڈر جنرل فیض حمید نے انہیں علاقائی سیکورٹی کے حوالے سے بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نے قبائلی مشران کو یقین دلایا کہ یہاں کے تمام مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں گے۔ قبائلی مشران کو اسلام اۤباد بلانے اور مسائل پر تفصیلی بات کرنے کے ساتھ ساتھ شمالی وزیرستان میں یونیورسٹی بنانے کا اعلان بھی کیا ۔