ملک و صوبے کی عدالتوں نے دو اہم نوعیت کے دور رس فیصلے صادر کئے، عدالت عظمی کا فیصلہ انتہائی مایوس کن و قابل تشویش ، عدالت عالیہ کا فیصلہ لائق پزیرائی و تحسین ہے ،امان اللہ کنرانی

جمعہ 9 دسمبر 2022 21:20

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2022ء) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر و سینیٹر ( ر) امان اللہ کنرانی نے کہا ہے کہ ملک و صوبے کی عدالتوں نے دو اہم نوعیت کے دور رس فیصلے صادر کئے ،عدالت عظمی کا فیصلہ انتہائی مایوس کن و قابل تشویش جبکہ عدالت عالیہ کا فیصلہ لائق پزیرائی و تحسین ہے ،جس میں ملک کی بڑی عدالت نے اپنی تاریخ دہراتے ہوئے 1954 میں جسٹس منیر و 2000 میں جسٹس ارشاد حسن خان کے فیصلے کی پیروی کرتے ہوئے نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کردیا ہے جبکہ اس سے قبل اسی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس و اکثریتی ممبران نے آئین میں تحریف کرتے ہوئے پارٹی کے فیصلے سے انحراف کرنے والے ممبران کی نااہلی کے آئین کے شق میں اضافہ کرتے ہوئے ان کے ووٹ کسی جٴْرم و عمل سے قبل شٴْمار نہ کرنے کا نرالہ مشورہ صدر مملکت کو دیا جبکہ اسی سے منسلک کئی درخواستیں و اپیلیں متاثرہ فریقین کی عدالت عظمی میں آج بھی زیر التواء ہیں ،مگر ان نالشوں کا فیصلہ کرنے کی بجائے نظریہ ضرورت و کسی کی خواہش کی تکمیل میں وہ کچھ لکھ دیا جو آئین میں نہیں لکھا ہے ،بین ہی اسی طرح آج بھی 2013 میں فریقین کے نالش کا قطعی فیصلہ ہونے کے باوجود آئین کے آرٹیکل 186 کے روح و مندجات کے برعکس کسی کی خواہش کو جاتے جاتے پورا کردیا گیا ،یوں ہماری عدالت عظمی کے چند ججوں عدالتوں کے وقار کا بیچ چوراہے پر سودا کرلیا ،جسٹس منیر کے سیاہ فیصلے سے مشرقی پاکستان کے علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی ،آج ریکوڈک بلوچستان کے وسائل غیر ملکی قوتوں کے حوالے کرنے سے صوبے میں جاری مزاحمتی تحریکوں کو ایندھن فراہم کردیا گیا ہے ،جس کے مستقبل میں بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں جس طرح 26 اگست 2006 کو نواب بگٹی شہید کو تراتانی کے سنگلاخ پہاڑوں کے اندر نشانہ بناکر سمجھا گیا صوبے میں امن قائم کردیا گیا ہے ،مگر گذشتہ دو دھائیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم امن سے کوسوں دور چلے گئے پہلے لوگ ترقی و خوشحالی کے لئے ترستے تھے ،اب امن و آشتی کے پیاسے بن گئے ہیں جان و مال و عزت کو تارتار وسائل کو ہڑپ و بلوچ شناخت کو داغدار کردیا گیا ہے ،اگرچہ ایسے میں صوبے کی کوئی موثر آواز نہ ہونے سے یہ مسئلہ پس پردہ جاسکتا ہے مگر یہ چنگاری سٴْلگتی رہے گی جس کے شعلے ملک کو لپٹ میں لے سکتے ہیں اس سے قبل سی پیک کے نام پر صوبے کے حقوق کو غصب ایک نو آبادیاتی کے نظام کے طرز پر اس کی اتھارٹی وفاق اور ریٹائرڈ جنرل کے باتھ میں دے گئی اب ریکوڈک میں بھی ایسی ہی تاریخ دہرائی جائے گی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کو واضح طور پر گریٹ گیم کا آماجگاہ بنادیا گیا ہے پہلے گوادر سی پیک چائنا کو دے کر امریکہ اس کے اتحادیوں کو ناراض کیا گیا اب ریکوڈک امریکہ و اس کے اتحادی آسٹریلیا،برطانیہ و کینیڈا اور چلی کو دے کر ان کو خوش کردیا گیا ہے اور اپنے لئے سرکار کے کل پردازوں نے براڈ شیٹ کی طرز پر بیرون ملک ڈیل کے شکوک و شبہات میں اضافہ کردیا پہلے غیرملکی ثالثی ٹریبونل سے 6 ارب ڈالر کے ہرجانہ کی بات تھی اب اس کو بڑھا چڑھا کر 11 ارب ڈالر بتایا گیا جبکہ یہی رقم اس پراجیکٹ کے شفاف طریقے سے نیلام و بولی کے زریعے دیگر کمپنیوں سے بھی حاصل کی جاسکتی تھی جو ریکوڈک پراجیکٹ کی ریفائنری صوبے کے اندر لگانے پر راضی تھے ،مگر حکومت و عدالت و مقتدر حلقوں کی ھٹ دھرمی و غیر منصافانہ روئیے سے بلوچستان کے مفادات کو زبردست دھچکہ لگا ہے جبکہ آج صوبے کی عدالت نے جسٹس ہاشم کاکڑ و جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جرات مندانہ فیصلے کے زریعے طاقت کے نشے میں دٴْھت حلقوں کو انصاف کی پٴْکار پر لبیک کہنے کا بگل بجادیا ہے جس میں سینٹ آف پاکستان کے معزز رکن کی تکریم کا تحفظ کرتے ہوئے ان کے خلاف بے بنیادی فوجداری مقدمات کو خارج کرنے کا حکم دے کر اپنی غیر جانبداری و خدا کے سوا کسی کے سامنے سر نڈر نہ کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے جو صوبے کے لئے باعث فخر ہے دونوں ججز نے اپنے صوبے کی مٹی کا حق ادا کردیا ہے۔