پارلیمنٹ نئی قانون سازی کے بعد عدالت نئے قانون کیمطابق چلنے کی پابند ہے

سپریم کورٹ تمام فاضل ججز کا مجموعہ ہے فرد واحد کا فیصلہ نہیں چل سکتا، موجو دہ بحران کا حل فُل کورٹ سماعت کے سوا کچھ نہیں۔ وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 30 مارچ 2023 18:58

پارلیمنٹ نئی قانون سازی کے بعد عدالت نئے قانون کیمطابق چلنے کی پابند ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 30 مارچ2023ء) پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نئی قانون سازی کے بعد عدالت نئے قانون کیمطابق چلنے کی پابند ہے، سپریم کورٹ تمام فاضل ججز کا مجموعہ ہے فرد واحد کا فیصلہ نہیں چل سکتا، موجو دہ بحران کا حل فُل کورٹ سماعت کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ من مرضی کے من پسند فیصلوں کا دور گزر گیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان تمام فاضل ججز کا مجموعہ ہے فرد واحد کا فیصلہ نہیں چل سکتا۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ الیکشن ایشو پر کئی بنچ بنے اور ٹوٹے۔ ایک وقت میں عدالت عظمیٰ کے 2 فیصلے آچُکے، 2/3 اور3/4 کا تنازعہ اپنی جگہ کھڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سماعت سے پہلے سپریم کورٹ رولز بنانے پرعدالتی فیصلہ آ چُکا، پارلیمنٹ نئی قانون سازی مکمل کر چکی۔

(جاری ہے)

عدالت نئے قانون کیمطابق چلنے کی پابند ہے، موجو دہ بحران کا حل فُل کورٹ سماعت کے سوا کچھ نہیں، معاملہ وہیں سے شروع ہوگا جہاں سے بگاڑا گیا۔ انہوں نے کہا کہ محترم چیف جسٹس ادارے کی حُرمت اوراتھارٹی کی حفاظت کیلئے اپنی رائے پر نظر ثانی کریں، فُل کورٹ تشکیل دی جائے۔ یاد رہے سینیٹ نے بھی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر بل 2023 کی کثرت رائے سے منظوری دیدی۔

آج جمعرات کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے ’’دی سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر بل ’’2023 ‘‘ کو سینیٹ میں پیش کرنے کی تحریک پیش کی۔ وزیر قانون نے بل کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس بل کی 7 شقیں آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ قوانین میں رد وبدل کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے۔

دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں یہ نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ اجتماعی سو چ کی بجائے فرد واحد کی سوچ پر انحصار کیا جانے لگا۔ بار کونسلز ،بار ایسوسی ایشن، سول سوسائٹی ، سرکاری ملازمین ، کاروباری طبقے سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں کی طرف سے اس پر اعتراضات اٹھے۔ گزشتہ 18، 20 سالوں کے دوران ہم نے وہ ادوار بھی دیکھے جب آرٹیکل 184 (3) کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایسے ایسے معاملات پر از خودنوٹس لئے گئے کہ لوگوں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی۔ سکولوں میں بچوں کی یونیفارم ، ہسپتالوں میں پارکنگ کے معاملات، میلی چادروں ، اساتذہ کی تعیناتیوں اور جیل کے کھانوں جیسے معاملات پر بھی از خود نوٹس لئے گئے۔