جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام قبائلی اضلاع میں امن و امان اور درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد

منگل 29 اگست 2023 18:43

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 اگست2023ء) جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام قبائلی اضلاع میں امن و امان اور درپیش دیگر مسائل کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے صوبائی قائدین، قبائلی عمائدین ، دانشور، وکلاء، میڈیا سے وابستہ افراد اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے معززین نے شرکت کی۔

اجلاس کی صدارت جماعت اسلامی خیبرپختونخوا کے امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کی۔ اے پی سی سے صوبائی سیکرٹری جنرل عبد الواسع، نائب امیر عنایت اللہ خان، تحریک حقوق قبائل کے سربراہ شاہ فیصل آفریدی، سابق گورنر انجینئر شوکت علی، جے یو آئی ف کے صوبائی امیر مولانا عطاء الرحمٰن، شاہ جی گل افریدی، جے یو آئی س کے سربراہ مولانا حامد الحق حقانی، پیپلز پارٹی کے ساجد حسین طوری، صحافیوں عقیل یوسفزئی، محمود جان بابر، ناصر حسین اور شمس مہمند اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

(جاری ہے)

آل پارٹیز کانفرنس میں تمام شرکاء نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا اور قبائلی اضلاع میں جاری بدامنی اور دیگر مسائل کے حل حوالے سے تجاویز پیش کیں، مجلس کا درج ذیل نکات پر مکمل اتفاق رائے پایا گیا۔گذشتہ 20 سالوں میں قبائلی اضلاع میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی عوام نے لازوال قربانیاں پیش کیں، اپنے گھر بار ، کاروبار اور علاقے چھوڑ کر سالوں تک آئی ڈی پیز ر ہے۔

فوجی آپریشن کے بعد اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ اب اِن علاقوں میں امن وامان قائم ہو گا، لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ایک عرصے سے دوبارہ اِن علاقوں میں حالات خراب ہو رہے ہیں۔ مسلح تنظیموں نے دوبارہ اِن علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کر لیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پولیس چیک پوسٹوں پر حملے معمول بن گئے ہیں ۔ گذشتہ چند ماہ میں قبائلی اضلاع میں 150 سے زائد حملے پولیس چیک پوسٹس پر کیے گئے ہیں تاجروں، کارباری حضرات اور ڈاکٹرز کو بھتے کی کالیں موصول ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں ڈاکٹرز دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو علاج معالجے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

کانفرنس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ قبائلی اضلاع کو کسی اور پرائی جنگ کے لیے میدان نہ بنایا جائے۔ امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ عوام کے ذہنوں میں پائی جانے والی تشویش اور اضطراب کو دور کرنے کے لیے عملی اقدامات کئے جائیں اور اُن کی جان و مال اور کاروبار کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ضم شدہ قبائلی اضلاع میں امن وامان کے قیام کیلئے انٹیلیجنس بنیاد پر بلا تفریق عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔

قبائلی اضلاع کی پسماندگی کو دور کر کے پاکستان کے دیگر اضلاع کی طرح ترقی دی جائے۔حکومت فاٹا اصلاحات پر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر مِن و عن عمل کرتے ہوئے سالانہ 100 ارب اور 10 سالوں میں 1000 ارب روپے دیکر وعدہ پورا کرے۔ قبائلی اضلاع کا قومی وسائل پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسرے صوبوں کا، اس لیے این ایف سی ایوارڈ میں قابل تقسیم محاصل کا 3 فیصد حصہ جلد فراہم کیا جائے۔

قبائلیوں کے حق رائے دہی کا احترام کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی 12 اور صوبائی اسمبلی کی 24 نشستیں بحال کی جائیں۔قبائلی اضلاع میں گیس ،تیل اوردیگر معدنیات پر ادارے قبائلیوں کے حق کو تسلیم کریں۔ قبائلی اضلاع کے معاشی استحکام کے لئے ناگزیر ہے کہ "لیز" کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔قبائلی اضلاع کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کیلئے بلاسود قرضے دیے جائیں۔

قبائلی اضلاع میں مسمار گھروں کیلئے معاوضے کی فوری ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ قبائلی اضلاع کیلئے پولیس میں کم از کم 20 ہزار مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے۔ قبائلی اضلاع میں معاشی ترقی کیلئے منصوبوں کو حتمی شکل دی جائے اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جائے۔ قبائلی اضلاع میں تعلیمی انقلاب لا کر غیر مثبت سرگرمیوں کو کچلا جا سکتا ہے، اس لیے ناگزیر ہے کہ تمام اضلاع میں یونیورسٹیاں ، کالجز اور سکولز بنائے جائیں اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو بحال کیا جائے۔

قبائلی نوجوانوں کو تعلیم کے حصول میں آسانیاں دی جائیں اور ان کے لیے وظائف کا اجراء کیا جائے۔ کھیلوں کو غیر مثبت سرگرمیوں کے خلاف بہترین ہتھیار قرار دیا جاتا ہے اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کرکٹ سمیت ہر گیم میں قبائلیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے اس لیے ہر تحصیل کی سطح پرگراؤنڈ بنائے جائیں۔قبائلی اضلاع میں معطل شدہ خاصہ دار فورس کو بحال کیا جائے، جب تک پولیس فورس مکمل اور بااختیار نہیں ہو جاتی اُس وقت تک خاصہ دار فورس کو برقرار رکھا جائے۔ قبائلی اضلاع میں افغانستان کی طرف تمام تجارتی راستے کھول دئیے جائیں۔منشیات کی روک تھام اور خاتمے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔لینڈمائنزکی صفائی کے لیے خصوصی انتظامات کیے جائیں ۔