سندھ ریونیو بورڈنے سندھ ورکرز ویلفیئر فنڈکی مد میں صنعتی اداروں سے 6.9ارب روپے وصول کئے ہیں۔ نگراں وزیراعلی سندھ

جمعرات 28 ستمبر 2023 22:10

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 ستمبر2023ء) نگراں وزیراعلی ٰسندھ جسٹس مقبول باقر نے کہا ہے کہ سندھ ریونیو بورڈ (ایف آر بی)نے سندھ ورکرز ویلفیئر فنڈ (ای ڈبلیو ڈبلیو ایف)کی مد میں صنعتی اداروں سے 6.9 ارب روپے وصول کئے ہیں جبکہ سندھ ورکرز ویلفیئر پارٹی سیپشن فنڈ (ڈبلیو دبلیو پی ایف)طویل عرصے سے غیر ضروری قانونی چارہ جوئی میں پھنسا ہوا ہے۔

وزیراعلی ٰنے کہا کہ یہ رقم مزدوروں کی فلاح و بہبود کیلئے تھی لیکن قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے وصولی میں خلل آگیا ہے، میرے خیال میں یہ مزدوروں کیلئے ایک بڑی کامیابی ہے۔یاد رہے کہ نگراں وزیراعلیٰ نے ایس آر بی کو واجبات کی وصولی سے متعلق قانونی چارہ جوئی کیلئے نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے کیس سے متعلق حکم امتناعی نہیں دیا اس لیے ریکوری ہونی چاہیے جس پر ایس آر بی نے نوٹس جاری کیے، صنعتی اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں اور رقم کی وصولی یقینی بنائی۔

(جاری ہے)

جاری اعلامیہ کے مطابق ان خیالات کا اظہار انہوں جمعرات کو وزیراعلیٰ ہائوس میں اپنی زیر صدارت لیبر، ایس آر بی، محکمہ خزانہ اور ورکرز ویلفیئر بورڈ کے مشترکہ اجلاس میں کیا ۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری ڈاکٹر فخر عالم، چیئرمین پی اینڈ ڈی شکیل منگنیجو، وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری حسن نقوی، سیکرٹری خزانہ کاظم جتوئی، سیکرٹری محنت شارق احمد، چیئرمین ایس آر بی واصف میمن اور دیگر نے شرکت کی۔

ایف بی آر سے 22 ارب روپے وصولی: چیئرمین ایس آر بی واصف میمن نے وزیراعلی کو بتایا کہ ایف بی آر پر ایس ڈبلیو ڈبلیو ایف اور ایس ڈبلیو ڈبلیو پی ایف کی 22 ارب روپے کی رقم واجب الادا ہے جو سندھ کو منتقل کرنے سے گریزاں ہے۔ وزیراعلی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر نے گزشتہ تین سالوں میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کے تحت ایف بی آر کو سندھ میں قائم صنعتی اداروں کی جانب سے ادائیگیوں کی مد میں سندھ حکومت کو 22 ارب روپے منتقل نہیں کئے۔

اسی طرح او جی ڈی سی ایل نے ایک سال میں ایف بی آر کو صوبہ سندھ سے متعلق 2 ارب روپے کی رقم ادا کی ہے۔ وزیراعلی نے کہا کہ وہ نگراں وزیر اعظم کو خط لکھیں گے جس میں درخواست کی جائے گی کہ وہ وزارت خزانہ(وفاقی حکومت)کو تمام SWWF اور SWPPF کے تعاون سے ایف بی آر کے سندھ میں قائم صنعتی اداروں کی طرف سے 22 ارب روپے منتقل کرنے کی ہدایت کرے،نیز صوبہ سندھ سے متعلقہ شراکتیں جو کہ او جی ڈی سی ایل، پی ایس او، پی پی ایل، اینگرو گروپ، فوجی گروپ، سیمنٹ مینوفیکچررز وغیرہ نے صوبہ سندھ کو دی ہیں۔

کراس ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ پر تعطل: وزیراعلی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر متعدد اجلاسوں کے باوجود سندھ ریونیو بورڈ کو کراس ان پٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ (CITA)کی اصل رقم جاری نہیں کررہا جبکہ یہی رقم پنجاب ریونیو اتھارٹی اور کے پی ریونیو اتھارٹی کو باقاعدگی سے جاری کی جارہی ہے۔لیبر کالونیاں: نگراں وزیراعلی نے 27 اگست کو محکمہ لیبر کے ساتھ ملاقات میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گلشن معمار کراچی کے قریب لیبر فلیٹس کی فوری مرمت اور دیکھ بھال کا حکم دیا تھا۔

وزیراعلیٰ نے ڈائریکٹر انجینئرنگ اینڈ ورکس ڈبلیو ڈبلیو ایف مظفر شاہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ تین ہفتوں میں انکی مرمت کرائیں لیکن وہ اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ وزیراعلی نے جمعرات کو محکمہ کے اجلاس میں مظفر شاہ کی خدمات لی اور ان کے خلاف انکوائری کا حکم دیا۔ وزیراعلی کو بتایا گیا کہ 120 ملین روپے کے بجلی کے بل کی عدم ادائیگی پر لیبر فلیٹس کی بجلی منقطع کر دی گئی ہے۔

وزیراعلی نے کے الیکٹرک کے سی ای او مسٹر مونس علوی کو فون کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ کل (جمعہ) تک لیبر فلیٹس کی بجلی بحال کریں اور انہیں رپورٹ کریں۔ انہوں نے ورکر ویلفیئر بورڈ کو کیالیکٹرک کے ساتھ بجلی کی ادائیگی کا مسئلہ حل کرنے کی بھی ہدایت کی۔ ناجائز تجاوزات کا خاتمہ: وزیراعلی نے حیدرآباد اور شہید بے نظیر آباد کے کمشنرز کو ہدایت کی کہ دونوں شہروں کی لیبر کالونی سے لیبر فلیٹس/گھروں سے غیر قانونی قبضے ختم کر کے رپورٹ دیں۔

وزیراعلی نے ورکرز ویلفیئر بورڈ کو ہدایت کی کہ ورکرز کو تمام نئے فلیٹس شفاف طریقے سے الاٹ کر کے رپورٹ دیں۔ دریں اثنا وزیراعلی نے سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جو لیبر کالونیوں کی صورتحال، الاٹمنٹ اور غیر قانونی قبضوں کے بارے میں ایک جامع رپورٹ تیار کرے گی اور اسے اپنی سفارشات کے ساتھ پیش کرے گی۔ کم از کم اجرت: وزیراعلی ٰنے محکمہ محنت کو کم از کم اجرت کے نوٹیفکیشن کو جاری کرنے، صنعتی یونٹوں میں کام کرنے والے عارضی ملازمین کو مستقل کرنے اور تمام قسم کے وابستہ مسائل کو ختم کرنے کی ہدایت کی۔

انہوں نے محکمہ محنت کو کم از کم اجرت کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ مختلف میڈیا ہاسز نے اپنے کارکنوں کو گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کیں۔ اسی طرح وزیراعلی نے کہا کہ پرائیویٹ سکولوں نے اپنی خواتین اساتذہ کو کم تنخواہ دی ہے۔انہوں نے محکمہ محنت کو ہدایت کی کہ وہ میڈیا ورکرز اور سکول ٹیچرز بالخصوص خواتین اساتذہ کی شکایات کا ازالہ کرے۔