= خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی زندگی پر مختلف لکھی گئی کتابوں کی تقریب رونمائی پشتو زبان کے معروف شاعر پروفیسر درویش درانی کے زیر صدارت پریس کلب میں منعقد

جمعہ 1 دسمبر 2023 23:50

ئGکوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 دسمبر2023ء) خان شہید ریسرچ سنٹر کی جانب سے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے شعبہ اطلاعات ونشریات کے تعاون سے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی زندگی پر مختلف لکھی گئی کتابوں کی تقریب رونمائی پشتو زبان کے معروف شاعر پروفیسر درویش درانی کے زیر صدارت کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہوئی ۔ تقریب میں ڈاکٹر باقی درانی ، نصیب اللہ سیماب ، ہارون ایڈووکیٹ، ڈاکٹر لیاقت تابان ، نعیم آزاد ، عصمت اللہ زھیر ، پروفیسر عالم ترین ، پروفیسرفیض محمد شہزاد، میر حسن اتل ، اعجاز خان ہوتی سمیت ادب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے مختلف افراد نے شرکت کی ۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت ڈاکٹر محمود خلجی نے حاصل کی ۔

(جاری ہے)

جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض نصیر ننگیال نے سرانجام دیئے ۔ تقریب سے مصنف اور کالم نگار شوکت ترین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہارون ایڈووکیٹ کی کتاب خان شہید کی زندگی کا خلاصہ ہے جن کے ریفرنس کیلئے بنیادی ذریعہ خان شہید کی سوانح عمر ی ہے ، یہ کتاب طلباء کیلئے سب سے اہم ہے جس میں مصنف کا تجزیہ بھی شامل ہے اس کتاب میں خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی پیدائش سے شہادت تک کے حالات کا نہ صرف ذکر ہے بلکہ ان کا جائزہ بھی لیا گیا ہے کہ خان شہید کوقومی اہداف کے حصول کیلئے کن کن تکالیف سے گزرنا پڑا ہے ۔

میر حسن اتل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے خان شہید کو ان کی50ویں برسی کی مناسبت سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ، خان شہید صرف ہمارے وطن کے نہیں بلکہ اس خطے کے ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں ، انہوں نے ایک ایسے سامراج کے خلاف جدوجہد کی جن کے پاس ہر قسم کے وسائل تھے، یہ خان شہید کی جدوجہد کی بدولت ہی ممکن ہوا کہ فرنگی سامراج کو یہاں سے جانا پڑا، خان شہید ریسرچ سینٹر کی طرف سے کتابوں کا شائع ہونا پورے وطن کیلئے خوشی کی نوید ہے۔

خان شہید ریسرچ سینٹر کے قیام سے پشتونخوا وطن میں علم وشعور کے شمعیں جلانے میں اس طرح مدد دے گی کہ یہ ہمیں سیاسی ، معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے سیاسی پلان دے پائیگی ۔ ڈاکٹر لیاقت تابان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے خان شہید ریسرچ سینٹر کے قیام پر پورے وطن کو مبارکباد دیتے ہیں ۔ یہ انتہائی خوش آئند اقدام ہے جو کہ پورے پشتونخوا وطن میں علم وشعور کی شمعیں روشن کرینگے، نعیم آزاد صاحب نے جو کتاب لکھی ہے جس کی آج تقریب رونمائی ہے یہ ایک ایسی شاہکار کتاب ہے جس کے لکھنے کیلئے انہوں نے درجنوں کتابیں پڑھی ہونگی ۔

پشتونوں کو آج سیاسی ومعاشی غلامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ عصمت زہیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نعیم آزاد صاحب کی کتاب جس میں نیلسن منڈیلا ، گاندھی جی ، باچا خان اور خان شہید کی زندگیوں کا جائزہ لیا گیا ہے ، اپنی ذات میں ایک منفرد کتاب ہے ، جس میں ان لوگوں کی زندگیوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو کہ اپنے وطن کی آزادی کیلئے سامراج سے لڑپڑیں ، یہ کتاب حریت پسند طلباء کیلئے بہترین تحفہ ہے ، ساتھ ہی خان شہید ریسرچ سینٹر کے قیام سے پشتون ادیب ایک دوسرے کے قریب آئینگے اور ہم ان سے امید رکھتے ہیں کہ یہ اخبار اور رسالے کا اجراء بھی کرینگے۔

اس کتاب میں ان تکالیف کا ذکر ہے جو کہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے جیل میںجھلیں۔ خان شہید ، باچا خان اور نیلسن منڈیلا تینوں جیل میں تھے ۔ جب ان کو ان کے مائوں کی وفات کی خبر سنائی گئی یہ حضرات اپنی مائوں سے پھر نہ مل سکے ۔ خان شہید وہ عظیم فرد ہے جو قومی مفادکی خاطر ذاتی مفاد کو قربان کرتے رہے ۔ انہوں نے قومی جدوجہد کچھ اس انداز سے کی کہ جیسے یہاں پر خدا کی طرف سے فرض ہو۔

اعجاز ہوتی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان ہیروز کو زندہ رکھنے کیلئے ہمیں ان کی تعلیمات کو نئی نسل تک منتقل کرنا ہوگی ، ان ہیروز نے جو عملی جدوجہد کی ہے ان کی سوانح عمری میں بیان کی ہے اور بعد میں لکھاریوں ، ادیبوں اور شعراء نے ان کی تشریح کی ہے آج کا یہ پروگرام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ محمد نعیم آزاد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خان شہید ریسرچ سینٹر کا قیام نیک شگون ہے اور اس سے ادباء کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ مستقبل میں ایک مجلہ اور ٹی وی چینل کے اجراء کا ارادہ رکھتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ان مبارزین چار نیلسن منڈیلا ، خان شہید ، باچا خان اور گاندھی جی بالخصوص خان شہید کو سوانح عمری لکھنے کے فلاسفر سمجھتا ہوں۔ ہارون ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ خیبر پشتونخوا میں خان شہید پر صرف میں نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے اور اپنے صوبے میں خان شہید پر کتاب لکھی ہے اور میں اس پر فخر کرتاہوں ۔

ڈاکٹر نصیب اللہ سیماب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محمد نعیم آزاد صاحب انتہائی نامساعد حالات میں زندگی گزارنے کے باوجود پشتون قوم اور پشتو ادب کیلئے تگ ودو کررہے ہیں ، اپنی کتاب میں آزاد صاحب نے خان شہید کی عالمی سطح پر سیا سی قدوقامت بنیادی طور پر بیان کی ہے ۔ بیسویں صدی کے صف اول کے ہیروز کے قطار میں انتہائی پسماندہ علاقے سے تعلق ہونے کے باوجود جگہ بنانا خان شہید کا امتیاز ہے ، خان شہید اور باچا خان نے بیرونی عناصر اور نظریات سے متاثر ہوئے بغیر مقامی سیاسی معاشی اور سماجی حالات کے مطابقت میں جدوجہد کا ایک روشن اور واضح نظریہ دیا لیکن خان شہید کے نظریہ پر اس طرح عملی تحقیق نہ ہوئی جس کی ضرورت تھی ۔

خان شہید ریسرچ سینٹر صرف کاغذ تک محدود ہونے کی بجائے پشتون قوم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ علمی اثار فراہم کریں ۔ ڈاکٹر باقی درانی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کتاب لکھنا ایک حساس کام ہے جو لکھاری پڑھنے والوں تک پہنچانا چاہتا ہے کہ وہ مطالعہ سے محبت کریں۔ شوکت ترین نے کہا کہ ایک منظم جدوجہد کے ذریعے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کی حالات زندگی اور نظریات لوگوں تک پہنچائے ۔

اب کسی کو یہ گلہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم اپنے سیاسی ا کابرین کی تعلیمات سے نااشنا ہیں موجودہ سیمینار معاشرے میں شعور پھیلانے کی ایک کڑی ہے اور ایسے پروگراموں سے معاشرے میں اعتدال آتے ہیں۔ ہم کسی قوم کی ترقی اور ان کے تحریک کیخلاف نہیں ہیں لیکن ہم پشتون قوم کی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں اپنے حقوق کے حصول کیلئے ہمیں اپنے فرائض ادا کرنے چاہیے اور نفاق کی بجائے اتفاق کیلئے کوششیں کرنی چاہیے ۔

ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم لکھاریوں کے شعبے میں مفلسی کا شکار ہیں ، ہماری کوشش ہے کہ ایسے پروگراموں کے ذریعے اپنے پروفیسرز ، ادباء اور شعراء کو دنیا کے سامنے متعارف کراسکیں ۔ بڑی بڑی ڈگریوں کے حامل ہونے کے باوجود ہم اپنی مادری زبان پشتوسے ناآشنا ہیں اور ہم اس لیئے نہیں سیکھتے ہیں کہ یہ ذریعہ معاش نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی جو لوگ پشتو زبان لکھ پڑھ رہے ہیں یہ ان لکھاریوں ، ادیبوں اور شعراء کی مرہون منت ہے ۔

خان شہید کی سوانح عمری یوکرائن کے سفیر نے آپ کی تعلیمات سے متاثر ہوکر یوکرائنی زبان میں ترجمہ کی ۔ اس کے علاوہ سابق گورنر محمد خان اچکزئی کے " My Life and Times"کے عنوان سے انگریزی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہے ۔ ہماری موجودہ مسائل کا سبب قرآنی تعلیمات اور اپنی قومی تاریخ سے دوری ہے ۔ خان شہید کی پہلی گرفتاری لوگوں تک قرآنی تعلیمات کومادری زبان پشتو میں پہنچانے کے سبب عمل میں آئی اور انگریز سرکار نے اپنوں کے ذریعے سزا دی ۔

عبدالرئوف لالا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاست اور ادب انسانی جسم میں دو آنکھوں کی مانند ہیں ، لکھاری ، ادیب اور شاعراپنی بات کو فلسفے میں بیان کرتے ہیں ، انتہائی قلیل مدت میں خان شہید کے سیاسی اور علمی خدمات انتہائی زیادہ ہیں کیونکہ خان شہید کی نصف زندگی جیل کے سلاخوں کے اندر گزری ۔ ہمیں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور مطالعے کے کلچر کو فروغ دینا چاہیے۔

درویش درانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باچا خان اور خان شہید کی جدوجہد ایک سکے کے دو رُخ ہیں دونوں کے جدوجہد کے مقاصد ایک ہی تھے ۔ برطانوی سامراج نے پشتون وطن کے ٹکڑے کردیئے اور کسی ایک ٹکرے کے ساتھ بھی پشتون لفظ نہیں جوڑا گیا ۔ کسی ایک ٹکڑے میں بھی پشتو زبان رائج نہیں کی گئی ۔ انگریز نے برصغیر کو قبضہ کرنے کے بعد وہاں سرمایہ کاری کرکے وہاں سے دولت کمائی جبکہ پشتون وطن چونکہ ہندوستان تک کا دروازہ تھا اسے قبضہ کرنے کیلئے جنگیں کی کہ اس راستے سے کوی دوسرا نہیں آپائے ۔

کسی بھی انقلاب کیلئے لازمی ہے کہ اس کا وقت آپہنچے اور ایک بڑی شخصیت اس کی رہنمائی کریں ۔ گاندھی اور منڈیلا کے انقلاب کیلئے دونوں شرائط موجود تھے ، جبکہ باچاخان اور خان شہید کے پیچھے باشعور اجتماعیت نہیں تھی اور اب تک نہیں ہے جس کے حصول کیلئے ہم نے جدوجہد کرنی ہوگی کہ اس انقلاب کیلئے شرائط پوری کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں کہ خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی ،باچا خان کی محنت راہیگاں گئی بلکہ آج بھی جو جدوجہد ہر جگہ جاری ہے یہ انہیں کے بتائے گئے راستے اور ان کی کاوشوں اور قربانیوں کا نتیجہ ہے بچوں کے ذہنوں میں جب یہ زندہ باد مردہ باد کے نعرے انہوں نے ڈالے آج وہی ہر جگہ پرلت اور سیاسی احتجاج کی شکل میں جاری ہیں ۔

آج یہ سیاسی مبارزہ اور جدوجہد ضرور رنگ لائیگی۔ پروگرام میں ادباء شعراء میں کتابیں تقسیم کی گئیں اور خیبر پشتونخوا کے نامور ادیب شاعر ڈاکٹر اسرار نے ویڈیو پیغام کے ذریعے خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کو ان کی 50ویں یوم شہادت کی برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کی ۔اور ایک ویڈیو کے ذریعے تنیوں کتابوں پشتونخوامیپ کے شعبہ اطلاعات ونشریات کی جانب سے ڈاکو مینٹری پیش کی گئی ۔

مقررین نے کہا کہ سیاست اور ادب لازم وملزوم ہیں اس لیئے خان شہید نے سیاست کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی ترجیح دی تھی ۔ پروگرام میں پشتونخواملی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تالیمند خان یوسفزئی ، مرکزی سیکرٹریز صلاح الدین خان اچکزئی ، عبدالحق ابدال ، صوبائی ڈپٹی سیکرٹریز علائوا لدین کولکوال ، حبیب اللہ ناصر ایڈووکیٹ، ذاکر حسین کاسی ، ملک عمر کاکڑ، سردار حیات میرزئی ، گل خلجی ، دوست محمد لونی ، اقبال بٹے زئی ، سیف فیض اللہ آغا، عمر خان ترین ، ڈاکٹر تواب خان اچکزئی ، میئر پشین سردار اکبر ترین ، لیکچرر مالک اچکزئی ، نسیم ترین، ڈاکٹر شربت مندوخیل ، ڈاکٹر محبت خان ، انجینئر ولی اچکزئی ، ڈاکٹر ارسلان ، ڈاکٹر عزیز اچکزئی ، جلیل خان دوتانی، الیاس لالا ، عبدل خان لالا ، شریف مندوخیل ، پی ایس او کے سیف اللہ خان، بریال خان ، لیوال نورزئی ، مھیب شیراز ، ابرار خان بنوں ، عادل اچکزئی ، ماسٹر سعید خان، یونس زرمئی ، کفیل قربان ، سرور موسیٰ خیل ، محمود ترین ، ڈاکٹر واحد ، رضا شیداء ، ماسٹر سعید خان ، زاہد اللہ زاہد ، مناف خان دوتانی ، کلیم اللہ اچکزئی ، حاجی مجلون آکا، گل محمد ریگوال ، ڈاکٹر محمود ، مقبول رانا ،میروائس مشوانی ، ندیم خان ، نواز قائل اور سینکڑوں کی تعداد میں ادباء ،شعراء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کی ۔

خان شہید سٹڈیز مرکز ( خان شہید ریسرچ سینٹر) نشر واشاعت سمیت پشتون زبان وادب اور تاریخ پر کام اپنے قومی ہیروز پر تحقیق کیلئے نوجوانوں کو ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کریگی۔