Oمنتخب پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین و قانون کی پاسداری ہے اور اسکے بغیر گھمبیر سیاسی، معاشی، ثقافتی، آئینی و دیگر مسائل سے نجات ممکن نہیں ،چیئرمین مختار خان یوسفزئی

%ملک میں بسنے والے دیگر قوموں کے ساتھ برابری کی حیثیت حاصل کرنے کیلئے طویل جدوجہد کی اور اس راہ میں بہت مشکلات اور تکالیف برداشت کئے،تقریب سے خطاب

اتوار 10 دسمبر 2023 23:40

سوات (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 دسمبر2023ء) پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے شریک چیئرمین مختار خان یوسفزئی نے ضلع سوات کے دفتر میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارٹی کی سیاست کا محور خیبر پشتونخوا، جنوبی پشتونخوا ، اٹک و میانوالی پر مشتمل متحدہ پشتون صوبے کا قیام، ملک میں قوموں کی برابری کی بنیاد پر حقیقی فیڈریشن کی تشکیل، جمہور کی حکمرانی، منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی اور آئین و قانون کی پاسداری ہے اور اسکے بغیر گھمبیر سیاسی، معاشی، ثقافتی، آئینی و دیگر مسائل سے نجات ممکن نہیں ۔

اس موقع پر پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری خورشید کاکاجی، مرکزی سیکریٹریزشمشیر علی خان،علی نامدار خان،باچا گل، شاہ روم خان مرکزی کمیٹی کے اراکین اور صوبائی ایگزیکٹیوز بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس ملک میں پشتون متحدہ صوبے کے قیام اور پشتو کوتعلیم اور عدالت کی زبان قرار دیکردینے، ملک میں بسنے والے دیگر قوموں کے ساتھ برابری کی حیثیت حاصل کرنے کیلئے طویل جدوجہد کی اور اس راہ میں بہت مشکلات اور تکالیف برداشت کئے اور درجنوں کی تعداد میں پارٹی ساتھیوں نے خون کا نظرانہ پیش کرکے شہید ہوئے اور اس انتھک جدوجہد کینتیجے میں ہم خیبر پشتونخوا میں ایک منظم پارٹی بنانے میں کامیاب ہوئے اور زبردست عوامی حمایت حاصل کی، جنوبی پشتونخوا میں سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی کا اعزاز حاصل کیا اور اسی طرح سندھ اور پنجاب میں پارٹی کے ادارے قائم کیے گئے۔

لیکن بدقسمتی سے 2013 کے الیکشن کے بعدپارٹی کے ادارے شعوری طور پرمفلوج کردیے گئے اور شخصی امریت کیلئے راہ ہموار کرکیانفرادی حیثیت میں انتہائی اہم نوعیت کے فیصلے اور پالیسیاں مسلط کردی گئیں اور اس کے ساتھ اپنے ہی پارٹی کے رہنماوں کے خلاف کردارکشی کی ایک منظم مہم شروع کردی گئی۔ان تمام حالات و واقعات کو انکے نوٹس میں لانے کے باوجود پارٹی کے سابقہ چیئرمین نے خاموشی اختیار کرلی بلکہ بار بار مطالبے کے باوجود پارٹی کے فیصلہ ساز اداروں کے اجلاس بلانے سے انکار کیا جسکی وجہ سے پارٹی میں سخت بحران نے جنم لیا اور ذاتی ضد اور انا کے نتیجے میں پارٹی کو دولخت کردیا گیا۔

انہوں نے واضح کیا کہ نہ تو پشتونخوا اور نہ ہی نیشنل عوامی پارٹی کسی کی ذاتی میراث ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام کا تعلق ہمارے ماضی کی جدوجہد سے جڑی ہے ، پشتونخوا ہمارے وطن کا نام ہے جو جہلم سے امو تک اور چین کے سرحد سے لیکر سبی تک پھیلا ہوا ہے جبکہ نیشنل عوامی پارٹی کا قیام 1957 میں لایا گیا اور ملک کے تمام محکوم اور مظلوم عوام کے تاریخ ساز شخصیات اس پارٹی کا حصہ تھیں جیسے خان عبد الغفار خان(باچا خان)، خان شہید عبد الصمد خان اچکزئی، افضل بنگش، محمو د علی قصوری، میاں افتخارا لدین، مولانا عبد الحمید بھاشانی، غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر، صاحبزادہ عبدالقیوم، جی ایم سید، حیدر بخش جتوئی اور دیگر قابل فخر رہنما شامل تھیں۔

ان حقائق کے برخلاف چند ناعاقبت اندیش عناصر کا پارٹی کے نام کے حوالے سے قوم اور عوام کو گمراہ کرنا سیاسی اخلاقیات کے ماورا عمل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سیاست پر پراپرٹی ڈیلرز کا قبضہ ہے جسکی وجہ سے باشعور سیاسی کارکنوں اور عوام نے ایک طویل جدوجہد اور قربانیاں دیکر بھی عوام کو قومی محکومی اور ازیتناک زندگی سینجات دلانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کو پراپرٹی ڈیلرز سے آزاد کرانا ہوگا اور تمام فیصلوں کا اختیار اداروں کے سپرد کرنے ہونگے اور موروثی سیاست کا ہر لحاظ سے خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہم نے ایک سال سے بحیثیت پارٹی ایک نئے راہ کا تعین کیا ہے جس میں پارٹی پر صرف کارکنوں اور عوام کی ملکیت ہوگی اور اس میں ادارے ہی بالادست رہینگے اور اہلیت کی بنیاد پر ہی رہنمائی کا حق حاصل ہوگا۔ انہوں نے پارٹی کے تمام اراکین کو ہدایت کی کہ وہ نئے عزم اور جزبے کے ساتھ جدوجہد کو آگے بڑھائے اور قوم کو اس مشکل حالات سے نکالنے کیلئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں