& بنگلہ دیش کے ساتھ جو کچھ ہوا وہی رویہ ہمارے ساتھ بھی رواں رکھا گیا ہے،بلوچستان نیشنل پارٹی

اتوار 4 فروری 2024 19:20

ة(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 فروری2024ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان حلقہ این اے 256 خضدار اور حلقہ پی بی 20 خضدار تھری سے بی این پی اورجمعیت علما اسلام کے مشترکہ امیدوار سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے ساتھ جو کچھ ہوا وہی رویہ ہمارے ساتھ بھی رواں رکھا گیا ہے،ریاستی ظلم و جبر کے ذریعے خوشحالی نہیں بلکہ تباہی کی جانب جاتی ہے،ہندوستان کے پائلٹ کو چائے پلا کر الوداع کہنے والوں سے ہم کچھ نہیں مانگتے بس بلوچستان کے گمشدہ افراد کو منظر عام پر لائیں،مجھے شاہی زئی کہہ کر پکارنے والے جان لیں کہ میں شاہی زئی ضرور ہوں مگر میری سیاست زئی اور قبیلہ کے دائرہ سے بالاتر ہے،بھٹو کی مردہ جسم کو خضدار لا کر خود کو زندہ رکھنے والوں بھٹو کی آمریت کو یاد رکھیں،میرا قصور یہ ہے کہ میں بلوچستان کے عوام کا بیانیہ اسلام آباد کے ایوانوں میں بیان کرتا ہوں،اسلام آباد میں بلوچ خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹ کر ان پر لاٹھی چارج کیا گیا ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے اسلام آباد گئیں تھیں 2002 کے بعد جھالاوان میں کابلی نواب منظر پر آ گئے یہ لقب وہ چمن سے لیا ہے تاریخ میں تو یہ لقب انگریز دیا کرتے تھے اب انگریز یہاں موجود نہیں وڈھ جنگ ریاستی کارندوں اور بلوچ عوام کے درمیان تھی ضلعی انتظامیہ انتخابات میں فریق بن رہی ہے اس دفعہ ہماری ووٹوں کو چوری کی گئی تو ردعمل سخت ہو گا ان خیالات کا اظہار انہوں نے سرداری شہر وڈھ میں بی این پی اور جمعیت علما اسلام کے مشترکہ انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا جلسہ میں عوام الناس نے بڑی تعداد میں شرکت کی جلسہ عام سے جمعیت علما اسلام کے مرکزی سرپرست مولانا قمر الدین سینیٹر مولانا فیض محمد سمانی،حلقہ پی بی 19 خضدار سے بی این پی اور جمعیت کا مشترکہ امیدوار میر یونس عزیز زہری مسابق رکن قومی اسمبلی میر عبدالروف مینگل،چیئرمین عبدالواحد بلوچ،مولانا غلام رسول مینگل،جسٹس ریٹائرڈ عبدالقادر مینگل،شفیق الرحمن ساسولی،مولانا عنایت اللہ رودینی،عبدالنبی بلوچ،عبدالرحیم بارانزئی،حاجی نذیر احمد مینگل،مفتی عبدالقادر شاہوانی،مولانا عبدالصبور مینگل،مجاہد عمرانی،سمیت دیگر نے خطاب کیا سردار اختر جان مینگل نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیاست کرنا اور انتخابات میں حصہ لینا ہر پارٹی فرد کا حق ہے ہم نے عوام کی سیاست کی ہے اور عوام کے مسائل اجاگر کیا ہے اور عوام کے لئے اپنی پوری قوت وقف کر رکھی ہے اسی کی بدولت کوئٹہ سے لیکر گوادر تک ڈیرہ جات سبی وغیرہ میں عوام ہمیں پذیرائی بخش رہی ہے یہ پذیرائی کچھ توقعات کی بنیاد پر ہماری حصے میں آئی ہے وہ توقعات یہی ہے کہ ہم بلوچستان کی آواز کو اسلام آباد کے ایوانوں میں اجاگر کرتے ہیں اور بلا خوف وخطر حقائق حکمرانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں میرے والد سردار عطا اللہ مینگل اور میرے سیاست پر تنقید کرنیوالے یا یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ میرے والد اور میر ی سیاست کی وجہ سے بلوچستان کے حالات خراب ہو تے ہیں وہ سن لیں اگر واقعی ایسا ہوتا تو جب میں وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کرنے نکلا تو خواتین گھروں سے باہر نکل کر ہمارے قافلہ پر گل پاشی کرتی رہیں یہ محبت بنیادی طور پر ان عناصر سے نفرت ہے جو بلوچستان سے نوجوانوں کو اغوا کر کے قتل کر رہے ہیں یا انہیں لاپتہ کرکے خفیہ زندانوں میں بند کررہے ہیں سردار اختر جان مینگل نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ بلوچستان میں آج ریاست وہی رویہ اپنائی ہوئی ہے جو رویہ بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ رواں رکھا گیا میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ریاستیں کبھی ظلم و جبر کے زریعے زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور نہ ہی ظلم و جبر کے زریعے خوشحالی لائی جا سکتی ہے سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ میں نے ابتدا میں کہا تھا کہ انتخابات میں ہمارے سامنے رکاوٹیں ڈالی جائے گی آج ہمارے خدشات درست ثابت ہو رہے ہیں ریاستی سرکارخضدار کے ضلعی انتظامیہ کی زریعے ہمارے سامنے رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے ہمارے ووٹوں کو چوری کرنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہمارے ووٹوں کو چوری کرنے اور ہماری جیت کو ہار میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی جھالاوان کی شاہراوں سے نہیں گزر سکے گا میرے سامنے رکاوٹیں اس لئے پیدا کی جا رہی ہے کیونکہ میں اسلام آباد میں بلوچستان کے گمشدہ لاپت افراد کی بات کرتا ہوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے پائلٹ کو چائے پلا کر ان کی مہمان نوازی کر کے انہیں باعزت طریقے سے ہندوستان بھیجنے والے ہمارے پیاروں کو بھی رہا کریں انہیں منظر عام پر لائیں انہی پیاروں کی بازیابی کے لئے بلوچ خواتین اسلام آباد گئیں تھیں مگر افسوس وہاں ہماری خواتین کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا ان پر لاٹھی چارج کی گئیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا حالانکہ وہ ایک امید لیکر اسلام آباد گئیں تھیں وڈھ جنگ کے حوالے سے سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ وڈھ جنگ ریاستی کارندوں اور بلوچ قوم کے درمیان تھی ہم نے بھٹو کی امریت برداشت کی ہم نے ایوب اور مشرف کے امریت کا مقابلہ کیا تو یہ ریاستی کارندے کیا چیز ہے دودکی کے قبرستان گواہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ ظالم کے خلاف ڈٹ گئے ہیں جانوں کی قربانی دی ہے مگر غیر کی حاکمیت کو قبول نہیں کیے ہیں ہاں ایک بات ضرور ہے کہ انگریز جنگ ضرورلڑی ہے مگر خواتین کو احترام دی ہے بد قسمتی سے اسلام آباد میں ہمارے خواتین کو نشانہ بنایا گیا ایک صاحب مجھے شاہی زئی کہہ کر مخاطب کرتا ہے میں انہیں کہنا چاہتا ہوں کہ ہاں میں شاہی زئی ضرور ہوں مگر میں نے کبھی زئی اور قبیلہ کی سیاست نہیں کی میں بلوچستان کی سیاست کرتا ہوں بلوچ قوم کی سیاست کرتا ہوں ہاں یہاں تاریخ درست کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے نوابی کا لقب انگریز دیا کرتے تھے مگر 2002 میں اچانک ایک نواب ظہور پزیر ہو گیا پتا نہیں یہ نوابی کا لقب چمن سے لیا یا کسی اور جگہ سے کیونکہ انگریز کا تو دور بہت پہلے ختم ہو گیا تھا سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بھٹو کے مظالم ہمیں یاد ہے آج بھٹو کی مردہ جسم میں خضدار لاکر خود کو زندہ رکھنے کی جو کوشش ہو رہی ہے اس کوشش کو عوام پہلے ہی مسترد کر دیا ہے انہوں نے عوام الناس سے اپیل کی کہ آٹھ فروری کو انتخابات ہو رہے ہیں اس میں عوام کلہاڑی اور کتاب پر مہر ثبت کر کے مخالفین کو شکست سے دو چار کر دے۔