Live Updates

پارٹی چھوڑ کے جانے والے: کیا پی ٹی آئی کی کوئی پالیسی ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 23 فروری 2024 21:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 فروری 2024ء) پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی نے اس حوالے سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کیس ٹو کیس معاملات کا جائزہ لے گی۔ تاہم کچھ ایسی شخصیات ہیں جن کو کسی بھی صورت میں پارٹی قبول نہیں کرے گی کیونکہ انہوں نے پارٹی کا ساتھ بہت برے وقت میں چھوڑا تھا۔

بیانات اور تاثر

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میںپاکستان تحریک انصافچھوڑ کے جانے والوں میں سے کچھ نے میڈیا پہ مختلف نوعیت کے انٹرویوز دیے ہیں یا پارلیمنٹ میں ایسی تقریر کی ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ لوگ پاکستان تحریک انصاف میں واپس آنا چاہتے ہیں۔

سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، سابق وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شپنگ علی زیدی اور ماضی میں پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سینیٹر ظفر عباس نے ایسے بیانات دیے جس سے کچھ حلقوں میں یہ تاثر گیا کہ یہ پی ٹی آئی کو دوبارہ جوائن کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

تا ہم جب ڈی ڈبلیو نے علی زیدی سے رابطہ کیا تو انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ ان کا سیاست میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

انہوں نے ڈٰ ی ڈبلیو کو بتایا، '' جنرل باجوہ کے حوالے سے میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر بیان کیا گیا۔ میں نے پاکستان تحریک انصاف سے کسی طرح کا کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔‘‘

پارٹی سے رابطہ کیا تھا

تاہم پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق مشیر خوراک جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پارٹی سے رابطہ کیا تھا۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہماری صورتحال کا خان صاحب کو علم ہے اور خان صاحب کے پاس 30 سے40 افراد کی فہرست گئی تھی جس میں مجھے اور مسرت کو نہ صرف یہ کہ پارٹی میں شمولیت کا کہا گیا بلکہ کاغذات نامزد گی بھی جمع کرانے کا کہا گیا۔‘‘

جمشید اقبال چیمہ کے مطابق تاہم ان کے حلقے سے کسی اور کو ٹکٹ دے دیا گیا۔ ''تقریباً آٹھ سے دس فیصد ایسے لوگ ہیں جن کے حوالے سے خان صاحب نے کہا تھا کہ انہیں ٹکٹ دی جائے لیکن خان صاحب کی اسیری کی وجہ سے رابطہ وقت پر نہیں ہو سکا اس لیے مجھ سمیت ان لوگوں کو بھی ٹکٹ نہیں مل سکا۔

‘‘

پی ٹی آئی نے تین کٹیگریز بنائی ہیں

لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر احسن رضا کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کو پارٹی نے رعایت دی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جن لوگوں نے پارٹی کو اعتماد میں لینے کے بعد پریس کانفرنس کی تھی یا اپنی مجبوری کا تذکرہ کرنے کے بعد پارٹی کو چھوڑا تھا، پارٹی نے ان کے لیے نرم رویہ رکھا ہے۔

لیہ سے پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے پارٹی کو اپنی مجبوری بتا کر پارٹی چھوڑی تھی۔ اس لیے ان کے بیٹے کو ٹکٹ دیا گیا۔‘‘

احسن رضا کے مطابق تاہم پارٹی اس معاملے میں احتیاط سے کام لے رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے بھی انتخابات کے موقع پر ٹکٹ کے لیے رابطہ کیا تھا لیکن انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔‘‘

احسن رضا کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق پارٹی نے اس حوالے سے تین کیٹیگیریز بنائی ہیں۔

''پہلے میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے نو مئی کے فوراً بعد پارٹی کو چھوڑ دیا تھا، دوسری میں وہ ہیں جنہیں بہت تھوڑے سے وقت کے لیے گرفتار کیا گیا تھا اور وہ پارٹی چھوڑ گئے تھے۔ تیسری کیٹیگری میں وہ لوگ ہیں جن پر تشدد کیا گیا تھا اور انہوں نے پارٹی کو اطلاع دینے کے بعد چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ تیسری کیٹگری کے لوگوں کو واپس لینے کے لیے پارٹی ابھی سوچ رہی ہے۔

‘‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ ایسے رہنما جو مختلف جماعتوں سے ہو کر آئے ہیں انہوں نے حالیہ دنوں میں پارٹی میں واپس آنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پنجاب کے ایک سابق گورنر نے پارٹی سے دوبارہ رابطہ کیا اور شمولیت اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا گیا۔

‘‘

فوزیہ کلثوم کے مطابق ان سابق گورنر کا بیٹا برطانیہ میں میئر کا الیکشن لڑنا چاہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا،'' اور کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں میں تحریک انصاف بہت مضبوط ہے اس لیے وہ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان سے رابطہ کیا، تو انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کسی نے ذاتی طور پر ان سے پارٹی میں واپسی کی درخواست کی یا کبھی عمران خان نے ان سے ملاقات کے دروان اس مسئلے پر بات کی، تو علیمہ خان کا جواب نفی میں تھا۔

مختص نشستوں کے لیے واپسی

پاکستان تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما جو عمران خان کے انتہائی قریب ہیں نے ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''یہ بات درست ہے کہ لوگ پارٹی میں واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان میں سے کچھ ایسی خواتین رہنما ہیں جو مخصوص نشستوں کے لیے واپس آنا چاہتی ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جو مجبوری کی وجہ سے پارٹی چھوڑ گئے تھے اور واپس آنا چاہتے ہیں جیسے کہ عثمان ڈار وغیرہ۔‘‘

کون پارٹی میں نہیں آسکیں گے؟

اس رہنما کے مطابق کچھ اشخاص ایسے ہیں جن کی واپسی شاید کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ ہو۔ '' ان میں پرویز خٹک، فرخ حبیب، فیاض الحسن چوہان، عمران اسماعیل، علی زیدی، اسد عمر، سابق وزیر اعلٰی کے پی کے محمود خان، مراد راس،فواد چوہدری ، عندلیب عباس، فردوس عاشق اعوان، منزہ حسن، علی نواز اعوان، صداقت عباسی، ہمایوں اختراور سبطین خان شامل ہیں۔‘‘

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات