Live Updates

اجلاس کے دوران احتجاج: ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 29 فروری 2024 20:00

اجلاس کے دوران احتجاج: ن لیگ اور پی ٹی آئی میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 فروری 2024ء) قومی اسمبلی کے آج کے اجلاس میں جہاں نو منتخب اراکین اسمبلی نے اپنا حلف اٹھایا، وہیں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے خواجہ آصف کی تقریر کے دوران خوب شور شرابہ کیا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے اس احتجاجی موڈ سے لگتا ہے وہ اسمبلی میں احتجاج جاری رکھے گی۔

واضح رہے کہ آج کے اجلاس میں پی ٹی آئی نے عمران خان کے حق میں نعرے بازی کی جبکہ مسلم لیگ نون اور پی پی پی نے اپنے رہنماؤں کے لیے نعرے بازی کی۔

پاکستان میں نو منتخب قومی اسمبلی کے اراکین نے حلف اٹھا لیا

تاریخ نگران دور کو کیسے یاد رکھے گی؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی پچھلی حکومت کے اتحادی نیشنل پارٹی اور جے یو آئی بھی موجودہ صورت حال میں ن لیگ اور پی پی پی سے ناراض نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

مولانا فضل الرحمن نے پہلے ہی یہ عدنیہ دے دیا ہے کہ جمعیت اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیر اعظم کے انتخاب کا بائیکاٹ کرے گی۔ دوسرے طرف ایم کیو ایم نے ان انتخابات میں ن لیگ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

ایوان میں شور شرابہ

آج ایوان میں جب خواجہ آصف نے تقریر کرنے کی کوشش کی تو پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین اسمبلی نے اس پر خوب شور شرابہ کیا۔

ایک رکن جمشید دستی نے خواجہ آصف اور ن لیگ پر ووٹ چوری کا الزام لگایا۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین، جو اب سنی اتحاد کونسل کا حصہ ہیں، نے خواجہ آصف کی تقریر کے دوران کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔ خواجہ آصف نے بھی اس موقع پر سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو چپ کرانے کے لیے گھڑی لہرائی۔

اہم انتخابات

اجلاس کی صدارت کرنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے یکم مارچ یعنی کل بروز جمعہ تک اجلاس ملتوی کر دیا ہے۔

جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب کیا جائے گا۔ نون لیگ کی طرف سے سردار ایاز صادق کو اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے جب کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے غلام مصطفی شاہ کو اسپیکر کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے عامر ڈوگر کو اسپیکر شپ کے لیے اور ڈپٹی ا سپیکر شپ کے لیے جنید خان کو نامزد کیا ہے۔

مزید براں الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے بھی شیڈول کا اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت قائد ایوان کا انتخاب اتوار ہوگا۔ پاکستان مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے شہباز شریف وزارت اعظمیٰ کے امیدوار ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے پارٹی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان اس عہدے کے لیے نامزد کیے گئے ہیں۔

کشیدگی بڑھے گی

دوسری طرف اراکین اسمبلی نے آج کی کارروائی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے نو منتخب رکن قومی اسمبلی پھلین بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آج کی کاروائی سے لگتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف میں کشیدگی بڑھے گی۔ ملک کے اہم مسائل کے حوالے سے قانون سازی سے زیادہ ممکنہ طور پر وقت ضائع کیا جائے گا۔‘‘

پھلین بلوچ کے مطابق اراکین اسمبلی کو مہنگائی، بے روزگاری اور بلوچستان میں امن و امان کے حوالے سے سوچنا چاہیے۔

''ہمارے صوبے میں امن و امان کا بھی بڑا مسئلہ ہے جب کہ گوادر اور کئی علاقوں مین تباہ کن بارشیں ہوئی ہیں۔ لیکن یہاں ایسا لگتا ہے کہ کسی کو ہماری فکر نہیں۔‘‘

پھلین بلوچ کے مطابق قومی اسمبلی کو یہ سارے مسائل زیر بحث لانا چاہیے۔

مسلم لیگ کا خدشہ

مسلم لیگ نون کے اراکین کو بھی یہ خدشہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اسمبلی کی کارروائیوں میں روڑے اٹکائے گی۔

مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ماضی میں بھی شور شرابے کی سیاست کی ہے اور اب بھی وہ شور شرابے کی سیاست کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یقینا وہ اسمبلی کی کارروائی کے دوران شور شرابہ اور احتجاج کریں گے لیکن ماضی میں بھی انہیں شور شرابے سے کچھ نہیں ملا اور اب بھی انہیں کچھ نہیں ملے گا۔

‘‘

قیصر احمد شیخ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ '' انہوں نے پہلے اچھا خاصا وقت دھرنے میں گزارا۔ پھر پارلیمنٹ میں آئے اور بعد میں استعفی دے دیا۔اب پھر آگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خود فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ انہیں اس اسمبلی کے ساتھ کیا کرنا ہے۔‘‘

شور شرابے کی روایت پرانی ہے

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی صحافی و تجزیہ نگار فریحہ ادریس کا کہنا ہے کہ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف انتخابات کو دھاندلی زدہ مانتی ہے، اس لیے وہ اس پر ہر فورم پر ممکنہ طور پر احتجاج کرے گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے ہاں پارلیمنٹ میں ہمیشہ سے شور شرابہ ہوتا آیا ہے۔ 2008 اور تیرہ کے درمیان جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو نون لیگ کے لوگوں نے بہت احتجاج کیا تھا اور تہمینہ دولتانہ نے اپنی چوڑیاں پھینک دی تھیں۔ بالکل اسی طرح بعد میں آنے والی اسمبلیوں میں بھی شدید احتجاج ہوا، تو یہ روایت برقرار رہے گی۔‘‘

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات