پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات نبھانے میں بڑے نقصانات اٹھائے ‘ لیاقت بلوچ

امریکہ نے پاکستان کے اسٹریٹیجک ترجیحات کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا اور پیٹھ میں چھرا گھومپا واشنگٹن پاکستان کے جوہری پروگرام کا بھی مخالف ہے اور گاہے بگاہے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے‘ قائمقام امیر جماعت اسلامی

ہفتہ 30 مارچ 2024 21:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 مارچ2024ء) قائمقام امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے وزیراعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات نبھانے میں بڑے نقصانات اٹھائے اس کے باوجود امریکہ نے پاکستان کے اسٹریٹیجک ترجیحات کے حوالے سے ہمیشہ پاکستان کو دھوکہ دیا اور پیٹھ میں چھرا گھومپا، واشنگٹن پاکستان کے جوہری پروگرام کا بھی مخالف ہے اور گاہے بگاہے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے، ملک کے ایٹمی اثاثوں پر اس کی نظر ہے، اس لیے اس خط کے پیچھے پوشیدہ عوامل کا جاننا ضروری ہے۔

ماضی گواہ ہے کہ 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کے موقع پر امریکہ نے بھارت کی سرپرستی اور سہولت کاری کی۔

(جاری ہے)

افغانستان کے معاملے میں بھی امریکہ نے پاکستان کو دو مرتبہ اپنے مفاد میں استعمال کیا لیکن امریکہ و نیٹو فورسز کی بدترین شکست اور افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں پاکستان کے خلاف نفرتوں کی بارودی سرنگیں بچھادیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پر دبا ڈالنے کی بجائے بھارت کو فاشزم کی کھلی چھوٹ دے کر کشمیریوں پر ظلم، جبر، بربریت اور انسانیت سوز مظالم کی انتہا میں بھارت کی سہولت کاری کی۔

ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ قومی معیشت کے لیے انتہائی ناگزیر ہونے کے باوجود پاکستان پر اس منصوبے کو ترک کرنے کے لیے مسلسل دبا اور بندشیں عائد کررکھی ہیں۔ پاکستان میں جاری معاشی بحران کے خاتمہ میں مدد کی بجائے آئی ایم ایف پیکج کے تحت کڑی شرائط عائد کرکے پاکستان کو لامتناہی اقتصادی مشکلات اور مالیاتی بحرانوں کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔

یہی نہیں بلکہ پاک-چین اقتصادی راہداری جیسے گیم چینجر منصوبے میں بھی طرح طرح کی مشکلات اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے ہر قسم کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں، اسی لیے اب یہ امر بھی اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی پے در پے کارروائیوں کے لیے بھارت کو امریکہ کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں پر صیہونی اسرائیلی ظلم و بربریت کا پشتیبان بھی امریکہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج امریکی قیادت اور حکومت اسرائیلی دہشت گردی، جنگی جرائم اور انسانیت سوز نسل کشی کی سرپرستی کی وجہ سے خود اپنے ہی ملک میں عوامی نفرت اور غم و غصے کا شکار ہے۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف جان لیں کہ جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک امریکی ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہوکر سرنڈر کیا تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اب موجودہ وزیراعظم بھی ایک امریکی خط پر لٹو بن جائیں۔

بلومبرگ جیسے امریکی مفاداتی ادارے کی طرف سے ان کی تعریفوں کے پل باندھنا تو کچھ ایسے ہی گل کھلانے کی طرف اشارہ دے رہی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایک باوقار، خوددار ملک کی حیثیت سے اپنا مقام منوانے کے لیے ضروری ہے کہ داخلی سلامتی اور امن و امان سے متعلق معاملات ٹھیک کیے جائیں۔ انتخاب 2024 نے ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی جو دیوار کھڑی کردی ہے اسے بلاتاخیر ڈھاکر اعتماد میں بدلنا وقت کی ضرورت ہے۔

سرکاری، حکومتی سطح پر غیرترقیاتی اخراجات کی بھرمار، عیاشیاں، کرپشن اور قومی وسائل کا بے دریغ استعمال و ضیاع قومی معیشت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ عوام کو انصاف فراہم کرنے والا نظامِ عدل خود غیرمحفوظ اور عوام کو انصاف دینے سے محروم ہے۔ سیاسی قیادت کے درمیان ڈائیلاگ اور مفاہمت کے راستے بند ہونے سے قومی سیاست بدترین پولرائزیشن، شدت اور جذبہ انتقام سے دوچار ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور ریاستی ادارے مل بیٹھ کر صورتِ حال کو درست سمت کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں، تاکہ خارجہ محاذ پر موجود چیلنجز کا قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ جواب دیا جاسکے، وگرنہ کمزور اور بے مقصد حکمتِ عملی مزید نقصانات کا باعث بنے گی۔