دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکول سے باہر: وزیر اعظم کا اعلان تنقید کی زد میں

DW ڈی ڈبلیو منگل 9 اپریل 2024 19:20

دو کروڑ ساٹھ لاکھ بچے اسکول سے باہر: وزیر اعظم کا اعلان تنقید کی زد میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2024ء) ماضی میں شہباز شریف نے سستی روٹی سے لے کر کئی دیگر پروجیکٹس شروع کیے جس میں انہیں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب ان کے اس نئے دعوے پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔

شہباز شریف نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں دانش اسکولوں کا جال بچھایا گیا ہے اور اب آسلام آباد کی غریب اور دور دراز کی بستیوں کے لیے بھی دانش اسکول بنائے جا رہے ہیں۔

انہوں نے اعلان کیا کہ ایسے اسکول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ کے دور دراز علاقوں میں بھی بنائے جائیں گے۔

سوالات اٹھیں گے

تاہم ماہرین تعلیم اور ناقدین شہباز شریف کے اس دعوے کو صرف دعوی ہی قرار دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

سابق رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ یہ دعوی بھی پرانے دعووں کی طرح کا ہی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ سوال اٹھے گا کہ ان بچوں کی تعداد میں اکثریت پنجاب سے ہے، تو شہباز شریف نے دس برس سے زیادہ حکومت کرنے کے بعد بھی ان کی تعداد کو پنجاب میں کم یا ختم کیوں نہیں کیا۔‘‘

کشور زہرہ کے مطابق تعلیم اب صوبائی سبجیکٹ ہے۔ وہ کہتی ہیں،''تو صوبے اسے وفاق کی طرف سے مداخلت سمجھیں گے اور وزیر اعظم کی اس مہم پر سوالات اٹھائے جائیں گے اور اس پر اعتراض بھی ہوگا۔

‘‘

ماضی میں بھی ایسے دعوے کیے گئے

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سابق چیئرمین اور معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر طارق بنوری کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی تمام حکومتوں نے اس طرح کے دعوے کیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے نہیں لگتا کہ اس بار بھی صورتحال کوئی مختلف ہوگی۔ حکمرانوں کو آؤٹ آف دا باکس سوچنے کی ضرورت ہے اور ان کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جو اس طرح کے حل لے کر آئیں۔

‘‘

وجوہات کیا ہیں؟

طارق بنوری کا کہنا تھا کہ ان وجوہات کو سمجھنا پڑے گا جن کی بنا پر بچے اسکول سے باہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''کچھ بچے غربت اور افلاس کی وجہ سے اسکول سے باہر ہیں لیکن کچھ بچے اس لیے بھی اسکول جانا نہیں چاہتے کیونکہ ان کے گھر والے سمجھتے ہیں کہ اسکول جانے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ لیپ ٹاپ یا عمارتیں تعمیر کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔

''اصل مسئلہ یہ ہے کہ کس طرح بچوں کو اور ان کے والدین کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ بچوں کو اسکول بھیجیں۔ اس کے لیے حکومت کو ان کے پاس جانا ہوگا اور ان کی بات سننا ہوگی۔‘‘

امرا کی عیاشیاں اور تعلیمی بجٹ

بہت سارے ماہرین پاکستان میں تعلیمی بجٹ کو انتہائی ناکافی قرار دیتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں غیر پیداواری اخراجات پر بہت پیسے خرچ کیے جاتے ہیں 17 بلین ڈالر سے زیادہ ملک کے اشرافیہ کو سبسیڈیز میں دیا جاتا ہے جبکہ ملک کےامرا پر تعیش اشیاء کی درآمد پر بھی بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ دفاع بھی بجٹ کے ایک بڑے حصے کو لے جاتا ہے جبکہ قرضوں کی ادائیگی اور معاشی طور پر بے سود ترقیاتی پروجیکٹس بھی اتنا پیسہ نہیں بنا سکتے کہ وہ تعلیم پر خرچ کیا جائے۔

سابق وزیر تعلیم زبیدہ جلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی بجٹ کو بڑھائے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ زبیدہ جلال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب تک حکومت غیر سرکاری تنظیموں کو اس میں شامل نہیں کرے گی اور کمیونٹی آرگنائزیشنز کو اس کا حصہ نہیں بنایا جائے گا، اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔

‘‘

زبیدہ جلال کے مطابق ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اسکول سے باہر ان بچوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ '' میرا خیال ہے کہ بجائے اس کے کہ حکومت نئے اسکول قائم کرے جو اسکول پہلے سے ہی موجود ہیں ان کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔‘‘

حکومت کی پر اعتمادی

تاہم حکومت اس حوالے سے بہت پر اعتماد نظر آتی ہے۔

وفاقی سیکرٹری برائے تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ محی الدین احمد وانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ایک دانش اسکول اسلام آباد میں تعمیر کیا جا رہا ہے، جس میں تقریبا پچیس سو طالب علموں کی گنجائش ہوگی۔ اس کے علاوہ تین اسکول گلگت میں، تین پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اور چار بلوچستان میں بھی قائم کیے جائیں گے۔‘‘

محی الدین احمد وانی کے مطابق اس کے لیےاضافی رقم مختص کی جا رہی ہے۔

'' ہم نے اسلام آباد میں 16 ڈگری کالجز میں آئی ٹی کے کورسز شروع کیے ہیں۔ 51 اسکولوں میں شام کی کلاسز شروع کی جا رہی ہیں۔ 44 اسکولوں میں کھانا فری دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے انرولمنٹ 15 سے 25 فیصد بڑھی ہے جبکہ اس سے پہلے گلگت بلتستان میں 82 اسکولوں کو یہ کھانا فراہم کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے حاضری 60 فیصد سے بڑھ کر 99 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

‘‘

محی الدین احمد وانی کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے صوبوں سے رابطہ کیا جا رہا ہے اور مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔ '' صرف ہر سال نصابی کتابیں چھاپنے پر 17 ارب روپے کا خرچہ آتا ہے، ممکنہ طور پر ایک سال ان کتابوں کی چھپائی روکی جا سکتی ہے اور طالب علم پرانے کورسیز کو استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ پیسہ پھر دوسرے مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے۔

‘‘

واضح رہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم کے حوالے سے ملالہ یوسف زئی نے بھی وزیراعظم کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ دو لاکھ اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں اور یہ کہ تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد ہونا چاہیے۔

تاہم محی الدین احمد وانی کا دعوی ہے کہ اساتذہ کی اصل ضرورت صرف 25 ہزار ہے۔ ''ہم نے اسلام آباد میں کئی اسکولوں میں بھرتیوں کو آؤٹ سورس کیا ہے جس سے اچھے نتائج مرتب ہوئے ہیں اور مز ید اسکولوں کو آوٹ سورس کیا جائے گا۔‘‘