کراچی شہر میں ڈاکوں کی یلغار ہے اور شہریوں کا غم غصہ روکنا ممکن نہیں رہا ہر طرف خوف و ہراس کی فضا قائم ہے، نسرین جلیل

پیر 15 اپریل 2024 21:10

․کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اپریل2024ء) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی سنئیر رہنما نسرین جلیل نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس عام نہیں بلکہ کراچی کی ماوں بہنوں بچوں اور والدین کا نوحہ پے،کراچی میں ڈاکوں کے ہاتھوں 59 افراد شہید ہو چکے ہیں ہم جنازے اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں ,کراچی شہر میں ڈاکوں کی یلغار ہے اور شہریوں کا غم غصہ روکنا ممکن نہیں رہا ہر طرف خوف و ہراس کی فضا قائم ہے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے حکومت اور وزیر داخلہ ائی جی کے بیانات کے حالات نارمل ہیں اور کسی خاص اقدام کی ضرورت نہیں یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم کس جنگل میں رہ رہے ہیں کس حکومت کے زیر نگرانی جس کا انتظام ہے جو سرے سے جن پہ کسی کسی طرح کے بھی حالاتوں کو یہ اثر نہیں ہوتا یہ انتہائی بھیانک صورتحال ہے جب خواتین ماں بہنوں بیٹیوں اپنے اپ کو محفوظ نہیں سمجھیں اور ایم کیو ایم کارکن شائنہ باجی کے ساتھ ہونے والی واردات بھی قابل مذمت ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی سنئیر رہنما نسرین جلیل اور قائد حزب اختلاف علی خورشیدی کی اراکینِ اسمبلی کے ہمراہ پاکستان ہاس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا قائد حزب اختلاف سندھ اسمبلی علی خورشیدی نے کہا کہ شہر میں تین مہینوں میں 59 افراد لقمہ اجل بن گئے،سندھ حکومت بری طرح ناکام ہو گئی ہے، یہ کوئی عام شہر نہیں بلکہ پاکستان کا رینویوانجمن ہے جیسے ڈاکووں کے حوالے کردیا گیا،شہر کی کوئی ایک گلی ایسی نہیں جو محفوظ ہے، 100 سے زائد خواتین ایسی ہیں جن کو عید شاپنگ کے دوران لوٹا گیا،اسٹریٹ کرائم کا مسلہ ایم کیو ایم کا مسلہ نہیں، ہر مذہب سے تعلق رکھنے والوں کا مسئلہ ہے ۔

جو لوگ مرے ہیں ان کے اہلخانہ سے پوچھا جائے کیا گزر رہی ہے ان پر اورشرم آنی چاہئے ان وزیروں کو جو کہتے ہیں امن و امان کی صورتحال قائم ہیانہوں نے کہا کہ انجینئرز ڈاکٹرز اور پاک فوج کے میجر کو مار دیا جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، سات سو زائد شہری زخمی ہیں ،رواں سال چار سو سے زائد گاڑیاں چوری ہو چکی ہیں،ان اسٹریٹ کرائم کے پیچھے استمعال ہونے والا میکینزم بڑا خطرناک ہے، ایس ایچ اوز ایف آئی آر کاٹنے میں دیر کرتے ہیں، ایک عام اندازہ کہ مطابق 90 کروڑ روپے کے موبائل ایک مہینے میں کراچی والوں سے چھین لئے جاتے ہیں،سالانہ 10 ارب روپے سے زائد کے موبائل چھین لئے جاتے ہیں، اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں اب ایک انڈسٹری کی حیثیت بن چکی ہے،لگتا ہے کہ سندھ حکومت بھی اس انڈسٹری کے ساتھ تعاون کر رہی ہے یہ بہت الارمنگ صورتحال ہے،لوگوں کو سڑکوں اور شاہراہوں پر مارا جا رہا ہے اس شہر میں تو عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں ہیں، کراچی میں رہنے والا بچہ بچہ جانتا ہے کون لوگ ملوث ہیں اسٹریٹ کرائم میں ان لوگوں کو ایکسپوز کیا جائے جو کراچی کے امن کو تباہ کر رہے ہیں اور سندھ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اس کو کام کرنا ہوگاانہوں نے کہا کہ یہ سیاسی مسئلہ نہیں لوگوں کی جان و مال کا مسئلہ ہے ہم اسٹریٹ کرائم کے خلاف صوبائی و قومی اسمبلی میں آواز اٹھائیں گیاگر بات نہیں سنی سڑکوں پر آنے پر مجبور ہونگیہمیں احتجاج پر مجبور نہ کیا جائے ہم صوبائی و قومی اسمبلی میں بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے یہ مسئلہ صرف ایم کیو ایم کا مسئلہ نہیں ہے پورے شہر کا مسئلہ ہیہم جلد اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرینگیاورکراچی کے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔