افغانستان میں مہنگائی کی شرح منفی 8فیصد ہے جبکہ پاکستان میں 30فیصد ہے

2 سال قبل دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا میں بھی مہنگائی کی شرح عشاریہ 9 فیصد تک گر چکی، حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے بالکل غدر مچا ہوا ہے، دانیال عزیز

muhammad ali محمد علی منگل 23 اپریل 2024 19:31

افغانستان میں مہنگائی کی شرح منفی 8فیصد ہے جبکہ پاکستان میں 30فیصد ہے
لاہور( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 23 اپریل 2024ء) افغانستان اور سری لنکا میں مہنگائی کی شرح پاکستان سے بھی کم ہونے کا انکشاف۔ تفصیلات جے مطابق سینئر سیاستدان اور مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز نے پاکستانی معیشت اور مہنگائی کے حوالے سے بڑا انکشاف کیا ہے۔ انہوں نے اے آروائی نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ افغانستان میں مہنگائی کی شرح منفی 8فیصد ہے جبکہ پاکستان میں 30فیصد ہے، 2 سال قبل دیوالیہ ہو جانے والے سری لنکا میں بھی مہنگائی کی شرح عشاریہ 9 فیصد تک گر چکی، حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں ہے بالکل غدر مچا ہوا ہے۔

حکومت نے بیان دیا کہ 590ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے، 590ارب کا مطلب 18روپے 32پیسے ہر پاکستانی کے بل میں کم ہونے تھے، 590ارب روپے ٹیکنیکل یا لائن لاسز نہیں بجلی چوری ہوتی ہے، حکومت کا انٹرسٹ ریٹ کم کرنے کا ارادہ ہے، حکومت امیروں کو چھوٹ اور غریبوں پر مزید ٹیکس لگانا چاہتی ہے۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو ایشیاء کا سب سے مہنگا ملک قرار دیا جا چکا۔

ایشیائی ترقیاتی بینک نے سالانہ ایشین ڈیولپمنٹ آوٹ لک رپورٹ 2024 جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی آئندہ مالی سال کی شرح نمو 2.8 فیصد ہونے کا اندازہ ہے، ملک میں مہنگائی میں آئندہ مالی سال کمی آنے کی امید ہے، مہنگائی کی شرح 15 فیصد تک آجائے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیائی ممالک میں مقامی طلب و ترقی، برآمدات اور سیاحت بڑھنے سے خطے کی شرح نمو 4.9 فیصد رہنے کا اندازہ ہے، خطے میں مہنگائی کی لہر میں کمی آئے گی۔

اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اصلاحات پر عملدرآمد کیا گیا تو معاشی بحالی کا عمل اس سال سے شروع ہو جائے گا۔ اے ڈی بی رپورٹ میں پاکستان کی شرح نمو رواں مالی سال 1.9 فیصد رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے جبکہ سیاسی عدم استحکام کو معاشی بحالی اور اصلاحات کیلئے اہم چیلنج قرار دیا گیا ہے۔ اے ڈی بی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو خواتین کی مالیاتی شمولیت کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، رواں مالی سال زرعی پیداوار اور صنعتی شعبے میں بہتری آنے کی امید ہے۔

رپورٹ کے مطابق تعمیراتی شعبے میں لاگت بڑھنے اور ٹیکس میں اضافے سے ترقی متاثر ہوئی ہے۔ اے ڈی بی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ آئندہ سال غذائی اشیاء کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔ رپورٹ کے مطابق مثبت نمو کی طرف واپسی زراعت اور صنعت دونوں میں بحالی کے علاوہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں بحالی سے آئے گی جو اصلاحاتی اقدامات پر پیش رفت اور ایک نئی اور زیادہ مستحکم حکومت میں منتقلی سے منسلک ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نجی کھپت میں اضافہ اور مارکیٹ کے طے شدہ شرح تبادلہ کی جانب بڑھنے سے کارکنوں کی ترسیلات زر میں اضافے سے ترقی کو تقویت ملے گی۔ تاہم اس گھریلو طلب موجودہ اخراجات میں اضافے اور سخت میکرو اکنامک پالیسیوں کی وجہ سے محدود رہے گی۔ رسد کے حوالے سے، سیلاب کے بعد زراعت کی بحالی سے ترقی میں اضافہ ہوگا۔ بہتر موسمی حالات اور سبسڈی والے قرضوں اور زرعی ان پٹس کے لئے سرکاری پیکیج کی وجہ سے پیداوار کم رفتار سے بڑھے گی جس سے زیر کاشت رقبے میں اضافہ اور بہتر پیداوار میں مدد ملے گی۔

مالی سال 2025 میں ہیڈ لائن افراط زر کی شرح کم ہو کر 15.0 فیصد رہنے کی توقع ہے کیونکہ میکرو اکنامک استحکام پر پیش رفت سے اعتماد بحال ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت درمیانی مدت میں اہم مالی استحکام کا منصوبہ پیش کرتی ہے، جس میں محصولات میں اضافہ اور معقول اخراجات شامل ہیں۔ ہدف مالی سال 2024 میں جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے بنیادی سرپلس اور جی ڈی پی کے 7.5 فیصد کے مجموعی خسارے کو حاصل کرنا ہے ، جو آئندہ سالوں میں دونوں شعبوں میں بتدریج کمی واقع ہوگی۔

درآمدی پابندیوں میں نرمی اور معاشی بحالی سے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں اضافے کی توقع ہے۔ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ مالی سال 2024 کے پہلے 7 ماہ میں کم ہو کر 1.1 ارب ڈالر رہ گیا ہے جو مالی سال 2023 کے اسی عرصے میں 3.8 ارب ڈالر تھا، کیونکہ تجارتی خسارہ 30.8 فیصد کم ہوا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر یقینی بیرونی امکانات کے باوجود اس سال ترقی پذیر ایشیا کی مجموعی نمو مستحکم رہے گی، زیادہ تر معیشتوں میں شرح سود میں اضافے کے چکر کے خاتمے کے ساتھ ساتھ سیمی کنڈکٹر کی طلب میں بہتری کی وجہ سے سامان کی برآمدات میں مسلسل بحالی خطے کے وسیع پیمانے پر مثبت نقطہ نظر کی حمایت کر رہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پالیسی سازوں کو متعدد خطرات پر نظر رکھنی چاہیے جس سے بڑھتے ہوئے تنازعات اور جغرافیائی سیاسی تناﺅ سپلائی چین میں خلل ڈال سکتے ہیں اور اجناس کی قیمتوں میں اتار چڑھاو میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ امریکہ کی مالیاتی پالیسی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال، چین میں پراپرٹی مارکیٹ کا دباو اور خراب موسم کے اثرات خطے کے لئے دیگر چیلنجز ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پالیسی سازوں کو تجارت، سرحد پار سرمایہ کاری اور اجناس کی فراہمی کے نیٹ ورکس بڑھانے کے ساتھ شرائط میں نرمی کے لئے کوششوں تیز کرنا چاہئے۔