سینیٹر اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری آئین سے متصادر ہے ، لیاقت بلوچ

وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے غیرآئینی اقدام کیا ہے۔ آئین کے آرٹیکلز 90، 91، اور 92 اس حوالے سے بالکل واضح ہیں، جن کے مطابق وزیراعظم وفاقء وزراء اور وزراء مملکت کی تقرری تو موجود ہے، لیکن نائب وزیراعظم کا منصب آئین میں کہیں موجود نہیں، نائب امیر جماعت اسلامی

پیر 29 اپریل 2024 22:56

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 اپریل2024ء) نائب امیر جماعت اسلامی، مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے سینیٹر اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے غیرآئینی اقدام کیا ہے۔ آئین کے آرٹیکلز 90، 91، اور 92 اس حوالے سے بالکل واضح ہیں، جن کے مطابق وزیراعظم وفاقء وزراء اور وزراء مملکت کی تقرری تو موجود ہے، لیکن نائب وزیراعظم کا منصب آئین میں کہیں موجود نہیں اور نہ ہی قائم مقام وزیراعظم کی تقرری کا کوئی ذکر آئین میں ہے۔

ماضی میں بھی ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو، پرویز الٰہی کی تقرری آئین کے خلاف تھی۔ صرف سیاسی ضرورتوں اور پارٹیوں کے اندرونی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے آئین اور قومی خزانہ سے کھلواڑ سیاسی، جمہوری، آئینی جرم ہے۔

(جاری ہے)

ماضی میں متحدہ مجلسِ عمل کو بھی نائب وزیراعظم کا عہدہ دینے کی پیش کش کی گئی تھی لیکن متحدہ مجلسِ عمل نے اِسے مسترد کردیا تھا۔

اسحاق ڈار باصلاحیت سیاست دان ہیں لیکن خود مسلم لیگ ن نے اٴْنہیں 12 واں کھلاڑی بنادیا ہے۔ سیاست، جمہوریت اور آئینی نظام کے استحکام کے لیے آئین کی پابندی سب کے لیے لازم ہے۔ حسبِ منشائ آئین کو موم کی ناک بناکرکھیلنا ملک و مِلت سے بڑا مذاق ہے۔لیاقت بلوچ نے اسلامک لائیرز موومنٹ پنجاب کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کی آزادی، کسی دباؤ کے بغیر آئین اور قانون کے مطابق آزادانہ فیصلوں سے ہی عوامی بنیادی حقوق کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔

ججوں کی تقرری، ترقی اور مقدمات کا نظامِ تفتیش اور نظامِ سماعت ناقص ہے۔ آزاد عدلیہ کے لیے بڑی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، سِول حکومتیں، بااثر و بارٴْسوخ طبقات عدالتوں سے من پسند فیصلے کے حربے استعمال کریں گے تو کرپشن اور بدعنوانی، انصاف کی پامالی تو ہوگی اور نتیجتاً عام آدمی کی انصاف سے محرومی سماج میں عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

یاقت بلوچ نے کہا کہ گندم کی گذشتہ فصل کی موجودگی میں گندم اِمپورٹ کرنے کا فیصلہ کِسانوں اور زراعت کے لیے تباہی ثابت ہوا ہے۔ کِسان سے گندم کی خریداری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ گندم کی فصل آنے پر کسانوں کو بییار و مددگار چھوڑدینا دیدہ و دانستہ طور پر زراعت کی تباہی ہے۔ حکومت سرکاری ریٹ پر کسانوں سے ساری گندم خریدے، اضافی گندم کی فروخت کے لیے ایکسپورٹ کا نظام بنانا حکومتی ذمہ داری ہے۔

حکومت کسانوں کے جائز احتجاج کو طاقت سے کچل رہی ہے اور کسان رہنماؤں کو گرفتار کررہی ہے۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ گندم کی خریداری بحران سے ثابت ہوگیا کہ حکومتیں نااہل ہیں اور اپنی کارکردگی صرف سوشل میڈیا پر ہی ثابت کررہے ہیں، سوشل میڈیا سماجی رابطوں کا ذریعہ تو ہے لیکن سیاست، حکومت اور ریاست سوشل میڈیا سے نہیں، ٹھوس اقدامات اور مؤثر حکمتِ عملی سے چلائی جاتی ہیں۔… اعجاز خان