انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث سکیورٹی اہلکار امن مشن پر؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 22 مئی 2024 19:00

انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث سکیورٹی اہلکار امن مشن پر؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2024ء) اقوام متحدہ کی امن فوج میں مبینہ طور پر بنگلہ دیش اور سری لنکا کے ایسے سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے، جو اپنے ممالک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف ڈی ڈبلیو، سویڈن میں قائم تحقیقاتی صحافت کے ادارے نیترا نیوز اور جرمن اخبار زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ نے اپنی ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں کیا ہے۔

اس مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں بنگلہ دیش کی بدنام زمانہ ریپڈ ایکشن بٹالین یا ریب کے، جن افسران کی نشاندہی کی گئی ہے، ان میں اس ادارے کی خفیہ شاخ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے علاوہ دیگر کئی اہلکار بھی شامل ہیں، جو ریب میں قائم ''ڈیٹھ اسکواڈ‘‘ کے ارکان بھی رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں اقوام متحدہ کے جمہوریہ کانگو میں تعینات امن مشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس امن دستے میں شامل اہلکاروں کی 2022ء میں لی گئی ایک گروپ سیلفی سے اس بات کا انکشاف ہوا کہ ان میں شامل بنگلہ دیشی اہلکار دراصل ریب کے ڈیتھ اسکواڈ کا ایک سابقہ رکن تھا۔

ریب کیا ہے؟

بنگلہ دیش کی پولیس اور فوج پر مشتمل یہ فورس 2004 ء میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی مدد سے دہشت گردی اور پرتشدد جرائم سے لڑنے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ لیکن اس کی جانب سے اختیار کیے گئے وحشیانہ تشدد کے طریقوں کی وجہ سے یہ جلد ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا شکار ہو گئی۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کبھی ری‍ب کے قیام میں مدد دینے والی امریکی انظامیہ نے 2021 میں اس پر پابندیاں عائد کر دیں۔

گزشتہ سال ریب کے حوالے سے شائع ہونے والی ڈی ڈبلیو اور نیترا نیوز کی ایک مشترکہ تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش کی یہ سکیورٹی فورس تشدد، قتل اور اغوا کا ارتکاب کرتی ہے اور پھر یہ اپنے ان جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیےکسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ اس کے اہداف میں مبینہ مجرم، اپوزیشن کے کارکن اور انسانی حقوق کے محافظ شامل ہیں۔

اس ادارے کے اندر سے ہی اس کے غلط اقدامات کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے والے دو افراد کے مطابق بظاہر ریب کے اراکین بنگلہ دیش میں اعلیٰ ترین سیاسی سطح کے احکامات کی روشنی میں کام کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے، جسے ڈھاکہ حکومت''بے بنیاد اور جھوٹا‘‘ قرار دے کر مسترد کرتی ہے۔

ریب کے ارکان کی امن مشنوں میں تعیناتی

ڈی ڈبلیو اور اس کے شریک تحقیق کار اداروں کی جانب سے ریب کے بارے میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے ایک سال بعد اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ریب کے اہلکاروں کو اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں تعیناتی کے لیے بھجوایا جا رہا ہے۔

اب مہینوں تک کی جانے والی اس تازہ تحقیق کے لیے بنگلہ دیش اور اس سے باہر فوجی حکام اور اقوام متحدہ کے مختلف ذرائع کے ساتھ انٹرویوز کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ خفیہ فوجی فائلوں، امن مشن میں تعیناتی کی فہرستوں اور بڑی محنت سے فلکر، لنکڈ اِن اور فیس بک کے ذریعے ان افسران کی شناخت کی گئی۔

اس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ریب کے ایک سو سے زائد افسران کو اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں تعیناتی کے لیے بھجوایا گیا اور ان میں سے چالیس کو صرف گزشتہ پانچ برسوں کے دوران یہ ذمہ داری سونپی گئی۔

اگرچہ ان تحقیقات میں اس بات کا ثبوت موجود نہیں ہے کہ ریب کے ان تعینات کردہ افسران میں سے ہر ایک انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث تھا تاہم ان میں سے کم از کم تین یعنی نعیم اے، حسن ٹی اور مسعود آر نے ریب کے بدنام زمانہ انٹیلی جنس ونگ کے لیے کام کیا، جبکہ ان میں سے دو ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدوں پر کام کر چکے ہیں۔

'تشدد کے لیے دستیاب تمام اوزار موجود‘

متعدد ذرائع کے مطابق ریب خفیہ یونٹ پورے بنگلہ دیش میں ٹارچر سیلوں کا ایک خفیہ نیٹ ورک چلاتا ہے، جن میں سے کچھ خفیہ طور پر گھروں میں جبکہ باقی ریب دفاتر کے کمپاؤنڈز کے اندر قائم کیے گئے ہیں۔

ریب اہلکاروں کے تشدد میں زندہ بچ جانے والوں اور فوجی ذرائع نے ڈی ڈبلیو اور نیترا نیوز کو ان اہلکاروں کی جانب سے مار پیٹ، فرضی پھانسیاں دینے، واٹر بورڈنگ اور بجلی کے جھٹکے لگانے کے بارے میں بتایا۔

ریب کے ایک سابق رکن نے وضاحت کی کہ ان کے پاس تفتیش کے لیے '' دستیاب تمام اوزار موجود ہیں۔‘‘ ایک خاص وحشیانہ طریقہ، جس کا اس رکن نے مشاہدہ کیا تھا، وہ ایک قیدی کو لوہے کے ایک کنٹینر میں بند کر کے اس کے نیچے آگ جلا دینا تھا۔

اس رکن کے مطابق ،''کسی وقت درجہ حرارت ناقابل برداشت ہو جاتا ہے کہ زیرحراست شخص بول اٹھتا ہے۔‘‘

ان ٹارچر سیلوں میں عام شہریوں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ ریب کے ایک ذریعے نے ڈی ڈبلیو اور اس کے شریک تحقیق کاروں کو بتایا کہ اقوام امن مشن میں تعینات ریب کے دونوں ڈپٹی ڈائریکٹرز بھی تشدد اور پھانسی جیسے جرائم میں ملوث رہے تھے۔

اگرچہ اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی لیکن کئی دوسرے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ امکان ہے کہ کمانڈ کی ذمہ داری والے افسران کم از کم یہ جانتے ہوں گے کہ ان ٹارچر سیلز میں کیا ہو رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے امن قائم کرنے والے دستوں کی تاریخ

بین الاقوامی برادری کے کہنے پر اقوام متحدہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد قیام امن کے لیے اپنے رکن ممالک کے فوجیوں اور پولیس افسران پر مشتمل ایک فورس قائم کی تھی۔

اقوام متحدہ کے ان امن دستوں کی منظوری سلامتی کونسل دیتی ہے اور ان کی تعیناتی تب کی جاتی ہے جب دنیا کے کسی ملک میں حکومت ناکام ہو جائے اور وہ ملک اندرونی انتشار کا شکار ہو جائے۔

فی الحال، عالمی سطح پر جمہوری جمہوریہ کانگو، جنوبی سوڈان اور وسطی افریقی جمہوریہ سے لے کر کوسوو اور کشمیر تک کے تنازعات اور بحرانوں میں دسیوں ہزار امن دستے تعینات ہیں۔

ان بلند و بالا مقاصد کے باوجود امن قائم کرنے کی کارروائیوں کے دوران امن مشن میں شامل فوجی انفرادی اور دستوں کی سطح پر برسوں سے اسکینڈلوں میں گھرے رہے ہیں، جن کی اقوام متحدہ نے ہمیشہ مذمت کی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ امن مشن بے اثر رہے ہیں، جب کہ امن مشن کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے لاتعداد جانیں بچائی ہیں۔ 2012ء میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں شامل فوجیوں کی طرف سے جنسی استحصال کے کئی سکینڈل، خاص طور پر ہیٹی میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبروں لے سرخیوں میں آنے کے بعد، اقوام متحدہ نے اپنے اہلکاروں کے لیے انسانی حقوق کی ایک نئی پالیسی نافذ کی تھی۔

آج اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں شریک فوجیوں میں سب سے زیا دہ تعداد نیپال، بھارت، روانڈا، بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہے۔

سری لنکا کی فوجی تعیناتیاں بھی قابل اعتراض

فرانسس ہیریسن ایک سابقہ ​​غیر ملکی نامہ نگار ہیں، جنہوں نے بعدازاں انسانی حقوق کی ایک کارکن کے طور پر سری لنکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی۔

ان کا لیپ ٹاپ ایسی تصاویر اور شہادتوں کے ساتھ بھرا پڑا ہے، جو سری لنکا کی فوج اور تامل ٹائیگرز کے مابین دہائیوں تک جاری رہنے والی وحشیانہ خانہ جنگی میں ہونے والے مظالم کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ خانہ جنگی انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزیوں، جن کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر جنگی جرائم ہو سکتے ہیں، کے ساتھ 2009 میں انجام کو پہنچی تھی۔

ہیریسن کی ان بہت سی دستاویزات میں ایک قدرے غیر واضح تصویر ہے، جس میں سری لنکا کے افسروں کے ایک گروپ کو بڑے سائز کی رنگ برنگی چھتریوں سے بارش سے بچتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے سامنے رکھی ترپال پر قطار میں لگی درجنوں لاشوں کو دیکھ رہے ہیں۔

ان میں سے ایک افسر لاشوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اس کا نام شیویندرا سلوا ہے۔

یہ وہ شخص ہے، جس نے خانہ جنگی کے دوران سری لنکن فوج کی 58 ویں ڈویژن کی کمانڈ کی اور اس ڈویژن پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور ماورائے عدالت قتل کے الزاما ت ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 2020 میں شیویندرا سلوا پر خانہ جنگی کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

2019 ء میں سری لنکا کی حکومت نے انہیں فوج میں آرمی چیف کے اعلیٰ ترین عہدے پر ترقی دی۔

اس پر بین الاقوامی بشمول اقوام متحدہ کے اپنے انسانی حقوق کے ادارے کی طرف سے تنقید کے بعد اقوام متحدہ میں امن مشن کے محکمے نے اعلان کیا کہ وہ مستقبل میں 'انتہائی ضروری آپریشنل ضروریات‘ کے علاوہ سری لنکا سے فوجی تعیناتیوں کو معطل کر دے گا۔

لیکن اقوام متحدہ کے شائع کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2019 میں سری لنکا نے اقوام متحدہ کے امن مشنز پر اپنے 687 فوجی بھیجے۔

سلوا کی تقرری کے ایک سال بعد بھی 665 سے زیادہ سری لنکن فوجیوں کو امن مشنوں میں تعینات کیا گیا۔

اس حوالے سے اقوام متحدہ کے امن مشن کے ترجمان نے اپنے تحریری جواب میں وضاحت کی، '' معطلی کا عمل اقوام متحدہ کی امن فوج کی کارروائیوں کو سنگین آپریشنل خطرے سے دوچار کر دیتا، اس لیے ان دستوں کے لیے استثنیٰ دیا گیا جبکہ موجودہ تعیناتیوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔

‘‘

اقوام متحدہ بلیک میلنگ کا شکار؟

اینڈریو گلمور اقوام متحدہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل برائے انسانی حقوق ہیں اور اب وہ برلن میں برگوف فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں، جو عالمی امن کی وکالت کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ابھی تک اقوام متحدہ کا حصہ ہوتے تو شاید وہ اتنی بے تکلفی سے یہ نہ کہہ پاتے کہ اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں شامل فوجیوں میں سے ''کچھ بہت ہی بےکار اور کچھ بہت ہی سفاک‘‘ بھی تھے۔

بنگلہ دیش کا ذکر کرتے ہوئے انہوں کہا، ''یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ والے لوگوں کو اپنی بٹالین میں خدمات انجام دینے کے لیے پیش کیا ہے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات '' یہ اپنے ہی ملک میں لوگوں پر دباؤ ڈالنے کی کارروائیوں میں ملوث پورے دستے ہو سکتے ہیں یا پھر کچھ افراد۔

‘‘

اینڈریو گلمور نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ ایسا ہونے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہا ہے لیکن انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اگر اقوام متحدہ اس طرح کی قابل اعتراض تعیناتیوں کو روکنے کے لیے متعلقہ ممالک پر بہت زیادہ زور دے تو اسے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ یہ ممالک اپنے فوجیوں کے مکمل انخلا کی دھمکی دے سکتے ہیں، ''اگر اس رکن ریاست کی حکومت کسی دستے یا فرد کی تعیناتی پر اصرار کر ے تو اس بارے میں کچھ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

‘‘

اسی طرح کے ایک معاملے کا ذکر کرتے ہوئے گلمور کہتے ہیں، ''ایک ملک، جو بہت سے امن آپریشنز میں فوجی مہیا کرنے میں واقعی اہم تھا، ایک بار اس نے زبانی طور پر کہا، ٹھیک ہے، ہم اپنی سارے فوجی ایک بار ہی نکالنے جا رہے ہیں۔‘‘

گلمور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ''بنیادی طور پر اس ملک جانا پڑا اور اس ملک کے سربراہ مملکت سے معافی مانگنا پڑی۔‘‘ گلمور کے مطابق بصورت دیگر اقوام متحدہ کے چار امن مشن ختم ہو جاتے۔

ناؤمی کنراڈ، عرفات الاسلام، برگیٹا شولکے (ش ر⁄ ا ا)