'اگر میں ہوتا تو کرتار پور کو پاکستان سے چھین لیتا'، مودی

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 24 مئی 2024 13:40

'اگر میں ہوتا تو کرتار پور کو پاکستان سے چھین لیتا'، مودی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 مئی 2024ء) بھارت میں عام انتخابات اب اپنے آخری مرحلے میں پہنچ رہے اور اس کی مہم میں بھی شدت آتی جا رہی ہے، جس میں پاکستان کا ذکر مختلف طریقوں سے بار بار ہورہا ہے۔

کیا پاکستان مخالف بیان بازی بھارت کے انتخابات کو متاثر کرے گی؟

بھارتی صوبے پنجاب میں پولنگ آخری مرحلے میں یکم جون کو ہو گی، جہاں گزشتہ روز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک انتخابی ریلی سے خطاب میں کہا کہ اگر وہ سن 1971 میں اقتدار میں ہوتے تو سکھوں کے مقدس مقام کرتار پور صاحب کو پاکستان سے چھین لیتے۔

بھارتی انتخابات کے دوران کشمیر میں عسکریت پسندوں کے حملے

واضح رہے کہ کرتار پور صاحب بھارتی پنجاب کی سرحد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہی پاکستانی سر زمین پر واقع ہے۔

(جاری ہے)

بھارتی انتخابات: کشمیر میں امیدوار کھڑا نہ کرنے کی حکمت عملی

پنجاب کے پٹیالہ شہر میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، مودی نے کہا کہ پنجاب اور سکھ برادری ہمیشہ قومی تعمیر کی کوششوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔

انہوں نے ریاست میں عام آدمی پارٹی کی حکومت پر بھی تنقید کی۔

بھارت: اپوزیشن کے سوشل میڈیا سربراہ گرفتار

تاہم ان کی بیشتر ریلیاں کانگریس پر تنقید اور پاکستان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہیں، چنانچہ سکھوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے انہوں نے کرتاپور صاحب کے جذباتی مسئلے کو چھیڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ سن 1971 میں کرتار پور صاحب گوردوارہ واپس لینے کا ایک موقع اس وقت سامنے آیا تھا، جب 90,000 سے زیادہ پاکستانی فوجیوں نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت، ''ہمارے ہاتھ میں ٹرمپ کارڈ تھا۔''

وزیر اعظم مودی کی نفرت انگیز بیان بازی سود مند یا نقصان دہ؟

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر، ''مودی اس وقت ہوتے تو کرتاپور صاحب ان (پاکستان) سے چھین لیتے اور پھر ان کی فوجوں کو آزاد کر تے۔''

بالاکوٹ حملے سے متعلق دنیا سے پہلے پاکستان کو بتایا تھا، مودی

مودی نے سن 2019 میں کرتاپور صاحب کوریڈور کے افتتاح کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ''انہوں (کانگریس) نے ایسا نہیں کیا، لیکن میں نے اتنا کیا جتنا میں کر سکتا تھا۔

''

مودی اور راہول گاندھی سے ان کی متنازع تقاریر پر جواب طلب

ان کا کہنا تھا کہ 70 سالوں سے ''ہم صرف دوربین سے کرتار پور صاحب گردوارہ کے 'درشن' کر سکتے'' تھے اور کرتارپور صاحب کا کوریڈور کھلنے سے سکھ یاتریوں کے لیے گرودوارے تک سفر کرنا آسان ہو گیا ہے۔

مودی نے ملک کی تقسیم کے لیے کانگریس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ اس نے اقتدار کی خاطر ایسا کیا۔

واضح رہے کہ سکھوں کے پہلے گرو گرو نانک دیو نے اپنی زندگی کے آخری سال کرتارپور صاحب میں گزارے تھے اور سکھوں کے لیے یہ ایک مقدس مقام ہے۔ پاکستانی پنجاب میں کرتارپور صاحب بھارتی سرحد سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

مبصرین کے مطابق الیکشن کے موسم میں پاکستان مخالف جذبات اب تک پوری طرح بھڑک نہیں سکے ہیں، البتہ بھارت کا پڑوسی ملک ایک بار پھر سے بھارتی سیاست دانوں کا ایک مناسب پنچنگ بیگ بن چکا ہے۔

پاکستان سے متعلق مودی سمیت بھارتی رہنماؤں کے مختلف بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ یہ پاکستان کے ساتھ ایک غیر صحت مند جنون کی عکاسی کرنے کے ساتھ ہی انتخابی فوائد کے لئے ہائپر نیشنلزم کا استحصال کرنے کے دانستہ ارادے کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا، ''یہ بڑھتی ہوئی ملکی اور بین الاقوامی تنقید سے توجہ ہٹانے کی ایک مایوس کن کوشش کی نشاندہی کرتا ہے۔''