اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ یکم جولائی ۔2024 ) سابق
وزیراعظم اور سنیئرسیاستدان شاہدخاقان عباسی نے حالیہ
بجٹ کو ملکی تاریخ کا بدترین
بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ
آئی ایم ایف نے اراکین
قومی اسمبلی کو 500 ارب دینے اور تنخواہ دار پر ٹیکس لگانے کا نہیں کہاسابق وفاقی وززیرخزانہ مفتاح اسماعیل کے ہمراہ
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ موجودہ بجٹ
پاکستان کی تاریخ کا بدترین
بجٹ پاس کیا گیا ہے‘ یہ
بجٹ میں
پاکستان کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہو گاانہوں نے حکومتی
بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس
بجٹ کے تحت ملک کی معیشت نہیں چل سکتی، ٹیکس کا یکساں نظام ہونا چاہیے تھا لیکن حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے.
انہوں نے کہا کہ ملک کے تنخواہ دار طبقے پر، ایکسپورٹر پر ٹیکس لگا کر آپ نے معیشت کی ترقی کو ختم کر دیا ہے‘ ٹیکس صرف تنخواہ دار طبقے سے حاصل کیا جا رہا ہے اس
بجٹ میں آج بھی نان فائلر کی کیٹیگری موجود ہے اور یہ آج بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہے آج تو حکومتی خسارہ اتنا ہے کہ آپ کے پاس عیاشیاں کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے
مہنگائی کی بات کریں تو جو ریٹیلر رجسٹرڈ ہیں وہ جو چیز بیچیں گے اس پر آدھا فیصد اور جو رجسٹرڈ نہیں ہیں ان پر اڑھائی فیصد لگے گا، یہ بھی عوام کی جیب سے آئے گا.
انہوں نے کہا کہ ہم
ایل پی جی اورڈیزل کی ا سمگلنگ کو روکنے میں کیوں ناکام ہیں؟ اربوں کی سگریٹس بک رہی ہیں ان کو نہیں چھیڑیں گے
فاٹا کا اضمام ہوا تھا تو وہاں جو فیکٹریاں لگی تھیں انہیںپانچ سال وہی چھوٹ ملی تھی سیلز ٹیکس میں جو اس سے پہلے تھی یہ فیکٹریاں بغیر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹی کے مال بناتی ہیں اور
پاکستان میں فروخت کرتی ہیں اور جب آپ کم قیمت پر
پاکستان میں مال بنا رہے ہوں تو دوسری فیکٹریاں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں انہوں نے کہا کہ ان کارخانوں کو ایک بار پھر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے، حالانکہ ان سے
فاٹا کی عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ صرف کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات ہیں.
انہوں نے کہا کہ پراپرٹی بیچنے پر اڑھائی سے چار فیصد تک ٹیکس نافذکرنے کے لیے ایسی شق رکھی ہے جس کا دفاع نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے سویلین اور ملٹری کے ریٹائرڈ افسران کو چھوٹ دی ہے جب آپ اس قسم کی شقیں لگاتے ہیں تو لوگ سوال پوچھیں گے انہوں نے کہاکہ
برآمدات کے شعبوں پر ٹیکس کی شرح سمجھ سے بالاتر ہے ڈیڑھ سے دو فیصد ٹیکس کم سے کم لگایا جارہا وہ بھی ان حالات میں جب آپ کو سب سے زیادہ ڈالرز کی ضرورت ہے آپ ملک کے تنخواہ دار طبقے کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں میں حکومت ہوں اپنے اخراجات کم نہیں کروں لیکن بوجھ تم پر ڈالوں گا، تو یہ ملک کیسے چلے گا؟.
انہوں نے کہا کہ کیا اس ملک میں جو دوسروں پر ٹیکس لگاتے ہیں خود ان پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے؟ یہ ہوتی ہے اشرافیہ جو اپنے آپ کو بھی بچاتی ہے اور اپنے دوستوں کو آپ نے آج تک ڈسکوز کی
نجکاری کرنے کی بات بھی نہیں کی آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ حکومت کا حجم کیسے کم کرنا ہے. انہوں نے کہا کہ
آئی ایم ایف نے تو حکومت سے نہیں کہا کہ وہ 24 فیصد جاری اخراجات بڑھائیں،
آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ زراعت پر ٹیکس لگائیں، ریٹیلر پر فکسڈ ٹیکس لگائیں وہ آپ نہیں لگا رہے، پراپرٹی ٹیکس بھی نہیں لگا رہے انہوں نے کہا کہ حکومت کو سب سے پہلے اپنے اخراجات میں کمی کرنی چاہیے تھی.
انہوں نے کہا کہ ہم کس قسم کی حکومت چلارہے ہیں ہماری سوچ کیا ہے کہ ہم اپنے اخرجات کم نہیں کریں گے لیکن عوام پر مزید بوجھ ڈالتے رہیں گے انہوں نے کہا کہ سابق
وزیراعظم نے کہاکہ ہم 20 سے 22 فیصد چھوٹ پر قرضے لے کر عوام پر مزید بوجھ ڈالتے ہیں جس ملک کا سود 6 سال میں 1500 ارب سے 10 ہزار ارب تک پہنچ جائے آج
پاکستان کا سب سے بڑا خرچہ، یہ جو تمام حکومتیں 30 ہزار ارب ملکر خرچ کریں گی اس میں ایک تہائی یعنی 10 ہزار ارب سود ہے.
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کس طرح چلے گا، ماضی میں کچھ جگہ ہوا کرتی تھی ہم غلط فیصلے کرتے تھے، عوام کے ٹیکسوں کے پیسے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے اراکین میں میں بانٹتے تھے، گزارہ ہوجاتا تھا، لیکن آج تو جگہ ہی نہیں ہے کہ اس قسم کی عیاشیاں برداشت کرسکیں آج تو ہمیں اپنے اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے.
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ اگر آپ
فاٹا کے عوام سے ہمدردی کرنا چاہتے ہیں تو ان انڈسٹریز پر وہی ٹیکس لگائیں جو
پاکستان کے باقی علاقوں میں ہیں، کیوں کہ
فاٹا اب
پاکستان کا حصہ ہے اور وہاں سے ٹیکس کی مد میں جو بھی رقم ملے وہ
فاٹا کے عوام پر خرچ کریں اور ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ پورے ہونے چاہیے وہاں سڑکیں، اسکول اور ہسپتال بناکر
فاٹا کو دیگر علاقوں کے بربار لائیں.
انہوں نے کہا کہ آپ جو بھی زمین اور مکان فروخت کریں گے جس پر اڑھائی سے 4 فیصد تک ٹیکس عائد کردیا گیا ہے، اور اس میں حاضر سرور اور ریٹائرڈ ملٹری اور بیوروکریسی کے لوگوں کو چھوٹ دے دی، یہ ایسا راستہ کھولا گیا ہے جو ہر معاملے کو خراب کرے گا، میں شہداءکے لواحقین کے حق میں ہوں کہ انہیں یہ چھوٹ دینی چاہیے انہوں نے کہاکہ
آئی ایم ایف سے
تیل کی مصنوعات پر 20 روپے تک ٹیکس کا پرپوزل پیش کیا گیا، اس پر مہربانی کرتے ہوئے 10 روپے کردیا گیا، اگر وہ 20 روپے برقرار رکھتے تو آج یہ سارے ٹیکس نہیں لگانے پڑتے، وزیر خزانہ اس عمل کی وضاحت کریں کہ کیوں صرف تنخواہ دار طبقے کو کیوں دبایا جارہا ہے.
سابق
وزیراعظم نے کہا کہ جو کچھ ہوا اس میں اتحادی پارٹیاں بھی حصہ دار ہیں، یہ اشرافیہ ہوتی ہے جو خود کو اور اپنے دوستوں کو بچاتی ہے، کیا ملک پر ٹیکس لگانے والوں پر خود ٹیکس نہیں لگنا چاہیے، ابھی بھی وقت ہے بیٹھ کر معاملات پر نظر ثانی کی جائے اس موقع پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ
آئی ایم ایف نے جن اقدامات کا کہا تھا وہاں چھوٹ دے دی گئی،
آئی ایم ایف نے نہیں کہا تھا آپ اپنے اخراجات بڑھائیں، خرچے کم کرکے 3 ہزار ارب روپے لاسکتے تھے جو نہیں کیے انہوں نے کہا کہ
آئی ایم ایف نے تنخواہ دار طبقے کا استحصال کرنے کا نہیں کہا
آئی ایم ایف نے کہا زرعی اورپراپرٹی ٹیکس لگائیں وہاں
استثنیٰ دیا گیا،
آئی ایم ایف نے نہیں کہا تھا کہ 500 ارب روپے کی ترقیاتی اسکیمیں منظورکریں.