اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اگست 2024ء) تیل کی دولت سے مالا مال خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات نے بدھ کے روز طالبان کے سفیر کی اسناد کو قبول کر لیا۔ افغانستان کے طالبان حکمرانوں کے لیے یہ اب تک کی سب سے بڑی سفارتی جیت کہی جا سکتی ہے، جنہیں ابھی تک دنیا کی کسی بھی حکومت نے با ضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
انسانی حقوق کے نمائندے کو افغانستان آنے کی اجازت نہیں
طالبان
حکمرانوں نے گزشتہ دسمبر میں بیجنگ میں اپنا پہلا سفیر بھیجا تھا، جس کے بعد طالبان کی جانب سے سفارتی سطح پر یہ اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ تازہ پیش رفت اس بات پر بھی بین الاقوامی تقسیم کو واضح کرتی ہے کہ آخر کابل کی طالبان حکومت سے کیسے نمٹا جائے۔افغانستان
میں 'اب پوری نسل کا مستقبل خطرے میں'، اقوام متحدہطالبان کی وزارت خارجہ نے کیا کہا؟
کابل
میں طالبان کی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں بدرالدین حقانی کی تعیناتی کے بارے میں خبر کی تصدیق کی۔(جاری ہے)
افغانستان: اقتدار کے تین برس پر طالبان رہنماؤں نے کیا کہا؟
واضح رہے کہ بدرالدین حقانی نام کے ایک سفیر اس سے قبل بھی متحدہ عرب امارات میں طالبان کے ایک ایلچی کے طور پر کام کر چکے ہیں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ وہی ہیں یا کوئی دوسری شخصیت۔
افغانستان
میں طالبان حکومت کے تین سال: سفارتی کامیابیاں اور مضبوط گرفتبدرالدین حقانی کا تعلق قائم مقام وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے نہیں ہے، جنہوں نے گزشتہ جون میں متحدہ عرب امارات کے رہنما شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی تھی۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ ان کا تعلق انہیں کی ٹیم سے ہے۔
واضح رہے کہ سراج الدین حقانی طاقتور حقانی نیٹ ورک کے موجودہ لیڈر ہیں، جنہیں مغربی ممالک نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
ہلاکت خیز حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں وہ امریکہ کو مطلوب ہیں اور کئی پابندیوں کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔دوطرفہ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں
مغربی ممالک سے پوری طرح الگ تھلگ رہنے کے باوجود، افغانستان کی طالبان قیادت نے بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات استوار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
طالبان
کی قید سے اپنے شہریوں کی رہائی پہلی ترجیح ہے، امریکہگزشتہ ہفتے ہی ازبک وزیر اعظم عبداللہ اریپوف نے کابل کا دورہ کیا تھا، جو کابل پر تین سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کسی بھی غیر ملکی اہلکار کا اعلیٰ ترین سطح کا دورہ تھا۔
طالبان
کا خواتین قیدیوں سے بہیمانہ سلوکاقوام متحدہ
کا کہنا ہے کہ طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا اس وقت "تقریباً ناممکن" ہے جب تک ملک کی خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں عائد ہیں۔پاکستان
میں افغان ویزا اسکیم کا غلط استعمال نہیں ہوا، جرمنیاس دوران ایک الگ پیش رفت میں بدھ کے روز اقوام متحدہ کے مقرر کردہ حقوق کے ماہر نے طالبان کے اس فیصلے کی مذمت کی، جس میں انہوں نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ بینیٹ کو ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
واضح رہے کہ خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ طالبان کے سلوک پر اکثر تنقید کرتے رہے ہیں۔
کابل
میں وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بینیٹ کی سرگرمیاں افغانستان اور افغان عوام کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں۔ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)