سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرکے عادل بازئی کی قومی اسمبلی کی رکنیت بحال کردی

عادل بازئی کے حلف ناموں کا معاملہ سول کورٹ میں تھا تو الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار کیسے ہے؟.جسٹس منصورعلی شاہ کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 9 دسمبر 2024 12:43

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرکے عادل بازئی کی قومی اسمبلی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 دسمبر۔2024 )سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا 21 نومبر کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن ) کے منحرف رکن عادل بازئی کی قومی اسمبلی کی رکنیت بحال کردی ہے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں جسٹس عقیل عباسی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عادل بازئی کی درخواست پر سماعت کی.

(جاری ہے)

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل تیمور اسلم نے موقف اپنایا کہ عادل بازئی کو الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 63 اے کے تحت ڈی سیٹ کیاالیکشن کمیشن نے حقائق کا درست جائزہ لیا نہ ہی انکوائری کے لیے عادل بازئی کو بلایا جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر عادل بازئی کے حلف ناموں کا معاملہ سول کورٹ میں تھا تو الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار کیسے ہے؟ کیا الیکشن کمیشن سول کورٹ کے زیر التوا معاملے پر نوٹس لے سکتا ہے؟.

جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ عادل بازئی کے دو حلف نامے ہیں اور وہ کہتے ہیں انہوں نے دوسرے پر دستخط کیا کیا الیکشن کمیشن فراڈ پر انکوائری کر سکتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کا معاملہ طے کریں کسی کو اسمبلی سے باہر نکال دینا معمولی کارروائی نہیں لہذا ہر پہلو کو دیکھنا ہو گا. دوران سماعت عادل بازئی کے وکیل تیمور اسلم نے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کا حوالہ دیا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا آپ واقعی مخصوص نشستوں کے فیصلے پر انخصار کرنا چاہتے ہیں؟جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اب تو وہ کہتے ہیں ترمیم بھی آچکی ہے جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے؟بہرحال چلیں آگے بڑھیں.

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس کیس میں مخصوص نشستوں کے فیصلے پر انخصار کر سکتے ہیں؟ کیا عادل بازئی مخصوص نشستوں والے 81 ارکان کی فہرست کا حصہ تھے؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت میں بتایا گیا الیکشن کمیشن ڈیکلریشن نہیں دے سکتا عدالت کو بتایا گیا امیدوار کا تعلق کس جماعت سے ہے یہ تعین کرنا سول کورٹ کا کام ہے عدالت نے عادل بازئی کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سمیت فریقین کو نوٹس جاری کردیا عادل بازئی نے این اے 262 کوئٹہ سے ڈی سیٹ ہونے کیخلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کیا تھا.

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن نے 21 نومبر کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن عادل خان بازئی کی نااہلی کے لیے ارسال کردہ ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ڈی سیٹ کردیا قومی اسمبلی میں این اے 262 کوئٹہ ون کی نشست کو خالی قرار دے دیا تھا عادل بازئی نے 8 فروری کو منعقدہ انتخابات میں آزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم بجٹ سیشن کے دوران انہوں نے پارٹی ہدایت کی خلاف ورزی کی تھی.

مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے عادل خان بازئی کی نااہلی کا ریفرنس اسپیکر ایاز صادق کو بھجوایا تھا جس میں آرٹیکل 63 اے کے تحت عادل خان بازئی کی نشست کو خالی دینے کی استدعا کی گئی تھی بعدازاں اسپیکر ایاز صادق نے مزید کارروائی کے لیے ریفرنس الیکشن کمیشن کو ارسال کیا تھا جس نے آج ریفرنس پر فیصلہ سناتے ہوئے عادل خان بازئی کو ڈی سیٹ کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں این اے 262 کوئٹہ ون کی نشست کو خالی قرار دے دیاہے اور کہا کہ قانون کے مطابق ایک آزاد امیدوار الیکشن کمیشن میں وفاداری کا حلف نامہ جمع کرانے کے بعد پارٹی نہیں بدل سکتا اس کے باوجود عادل بازئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے الیکشن کمیشن نے 12 نومبر کو عادل بازئی کی نااہلی کے ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کیا تھا واضح رہے کہ قومی اسمبلی کے خصوصی سیکرٹری نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کو خط تحریر کیاتھا جس میں بتایا گیا تھا کہ رکن قومی اسمبلی عادل بازئی نے پارٹی قیادت کے احکامات کی خلاف ورزی کی.