انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کا ” کاپ29 کے بعد ڈائیلاگ: نتائج اور حکمت عملی کا تجزیہ“ کے عنوان سے ڈائیلاگ کا انعقاد، وزیراعظم کی کوآڈینیٹر رومینہ خورشید عالم، سینیٹر شیری رحمان اور جسٹس منصور علی شاہ کا خطاب

منگل 17 دسمبر 2024 20:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 دسمبر2024ء) انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی)نے سول سوسائٹی کولیشن فار کلائمیٹ چینج اور فرانس کے سفارتخانہ کے اشتراک سے” کاپ29 کے بعد ڈائیلاگ: نتائج اور حکمت عملی کا تجزیہ“ کے عنوان سے ڈائیلاگ کا انعقاد کیا۔ منگل کو ہونے والی تقریب کے کلیدی مقررین میں وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ رومینہ خورشید عالم، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کی چیئرپرسن سینیٹر شیری رحمان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔

دیگر مقررین میں قائم مقام سیکرٹری موسمیاتی تبدیلی عائشہ موریانی اور ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خارجہ سید حیدر شاہ، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری اور دیگر شامل تھے۔

(جاری ہے)

انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے ڈی جی سہیل محمود نے اپنے خیرمقدمی کلمات میں باکو میں کاپ 29 کو عالمی برادری کے بڑھتے ہوئے موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے عزم کا ثبوت اور پاکستان جیسے ممالک کے لئے اس کی اہمیت پر زور دیا جو موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں شامل ہے۔

انہوں نے لاس اینڈ ڈمیج فنڈ کے آپریشنلائزیشن اور پیرس معاہدے کے آرٹیکل 6 پر ہونے والی پیشرفت کو نمایاں کامیابیوں کے طور پر اجاگر کیا۔ موسمیاتی مالیات کی مرکزیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے 2035 تک ترقی پذیر ممالک کے لئے باکو فنانس گول کے 1.3 ٹریلین ڈالر کے ہدف کا ذکر کیا جس میں 300 ارب ڈالر کا سالانہ عزم بھی شامل ہے۔ انہوں نے 2030 تک قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تین گنا کرنے اور توانائی کی کارکردگی کو دوگنا کرنے کے مطالبے کا خیرمقدم کیا۔

سہیل محمود نے پاکستان کی قومی موسمیاتی مالیاتی حکمت عملی کو ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے پاکستان کی ملکی پالیسیوں کو بین الاقوامی وعدوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے پر زور دیا۔ سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی عائشہ موریانی نے پاکستان کی پالیسیوں اور جاری منصوبوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کاپ ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل پر ترقیاتی اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مشغول ہونے کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کرتا ہے۔

انہوں نے نجی شعبے اور فنانسنگ کے ذریعے فنڈز کو متحرک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الحکومتی پینل آن کلائمیٹ چینج کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے۔ سینیٹر شیری رحمان نے اس بات پر زور دیا کہ جہاں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون ضروری ہے، وہیں پاکستان کے لیے قومی سطح پر موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیت پیدا کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ جیسے کثیر الجہتی پلیٹ فارمز پر اپنے تحفظات اور ترجیحات کا اظہار کرنا جاری رکھنا چاہئے جیسا کہ اس نے کامیابی سے لاس اینڈ ڈمیج فنڈ کے لئے کیا اور اسے گلوبل سائوتھ کی نمائندگی کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ اپنے کلیدی خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے آب و ہوا کے انصاف کے بارے میں عدلیہ کے نقطہ نظر خاص طور پر باکو میں کاپ 29 کے بعد موسمیاتی مالیات کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان کا آئین ملک کے اندر ماحولیاتی اور موسمیاتی انصاف کو فروغ دینے میں پیش پیش رہا ہے جب کہ ماحولیاتی انصاف ڈومسٹیک مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے، موسمیاتی انصاف کثیر شعبوں پر مشتمل ہے جو قومی سرحدوں سے باہر تک پھیلا ہوا ہے تاکہ صحت و خوراک کی حفاظت، انسانی اسمگلنگ اور نقل مکانی جیسے اہم خدشات کو حل کیا جاسکے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے اس بات پر زور دیا کہ موسمیاتی انصاف فطری طور پر زیادہ پیچیدہ ہے جس کی جڑیں ماحولیاتی تبدیلی کے وسیع اور زیادہ شدید اثرات سے جڑی ہوئی ہیں۔ اپنے اختتامی خطاب میں رومینہ خورشید عالم نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کے زیر تسلط بین الاقوامی فورمز میں اپنے مقاصد کی وکالت کرنے میں درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کاپ 29 میں اپنے نقطہ نظر اور رفتار میں پرعزم رہا ہے جس نے اپنی کوششوں کے لئے نمایاں پذیرائی اور تعریف حاصل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کاپ 29 کے مذاکرات خاص طور پر ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر قدرتی آفات کے اثرات کو کم کرنے کے لئے قبل از وقت وارننگ سسٹم کے لئے قرضوں اور گرانٹس کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا ۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ تخفیف کے معاملے میں صرف قرضے کافی نہیں ہیں، موثر کارروائی کو یقینی بنانے کے لئے صلاحیت کو بڑھانے، مناسب مدد فراہم کرنے اور طریقہ کار میں تاخیر کو دور کرنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہئے۔ انہوں نےکہا کہ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی آفات میں ان کے کردار پر زیادہ جوابدہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ اس بحران میں بڑے حصہ دار ہیں۔